آئی ایم ایف سے 50 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی قسط جلد ملنے کا امکان
واشنگٹن: بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کی معاشی کارکردگی کا گیارہوں جائزہ مکمل کرلیا جس کے بعد پاکستان کو قرض کی 50 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی قسط ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹرز کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اگلی قسط کی ادائیگی کے بعد مجموعی طور پر پاکستان کو فراہم کی جانے والی رقم کا حجم 60.1 ارب ڈالر ہوجائے گا جو اسے 3 سالہ ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کے تحت دیے جارہے ہیں۔
4 ستمبر 2013 کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے ای ایف ایف کے تحت 6.64 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی جو کہ آئی ایم ایف میں پاکستان کے موجودہ کوٹے کا 216 فیصد تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'نیا مالی سال آئی ایم ایف فری ہوگا'
آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر برائے محکمہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا مسعود احمد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششیں سود مند ثابت ہوئی ہیں اور پاکستانی حکومت کا یہ موقف درست ہے کہ اسے آئی ایم ایف سے قرض کے نئے پیکج کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا اور بجٹ خسارہ نصف تک کم کردیا، یہاں شرح نمو خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے معاشی استحکام کا ایجنڈا پورا کیا جو کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد تھا۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کا پاکستان کو 51 کروڑ ڈالرز دینے پر اتفاق
بہرحال آئی ایم ایف نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ اس نے معاشی اصلاحات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے مستقبل میں بھی اسے جاری رکھے کیوں کہ یہ معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
آئی ایم ایف نے خاص طور پر ساختیاتی اصلاحات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو برقرار رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ یہ اقدامات شرح نمو اور خاص طور پر برآمدات میں اضافے کا سبب بنیں گے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو یاد دہانی کرائی کہ پاکستان کی موجودہ برآمدات کا حجم صرف 25 ارب ڈالر ہے جو کہ 280 ارب ڈالر سے زائد کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کافی نہیں، برآمدات کا حجم دو گنا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف کا من سلویٰ
آئی ایم ایف کی ایک حالیہ جائزہ رپورٹ میں پاکستان کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ قابل ٹیکس آمدنی کو وسعت دے کر، ٹیکس کی وصولی یقینی بناکر اور ٹیکس نظام کو موثر اور منصفانہ خطوط پر استوار کرکے اپنی ٹیکس محصولات کو دوگنا کرسکتا ہے۔
'ان لاکنگ پاکستان ٹیکس ریوینیو پوٹینشل' کے نام سے جاری اس جائزہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کا ٹیکس نظام موثر کارگزاری اور شفافیت کو فروغ نہیں دیتا اور اس کی نوعیت بہت پیچیدہ اور بے ربط ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کا آئین ریوینیو کی ذمہ داری صوبوں پر عائد کرتا ہے جبکہ صوبوں کی اپنی آمدنی میں ٹیکس محصولات کا حصہ صرف 6.8فیصد ہے۔
یہ خبر 28جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔