گورنر جنرل جناح سے اسکندر مرزا تک
برصغیر کی تقسیم سے ابتدائی طور پر دو ممالک وجود میں آئے ۔ایک ہی دن تقسیم ہونے والے اس خطے نے برطانوی سامراج کے تسلط میں کم و بیش 200 سال گزارے لیکن آزادی کے بعد دونوں ممالک کے سیاسی ڈھانچے کے بنیادی ستون میں فرق تھا۔
مسلم لیگ کی قیادت میں پاکستان کی تحریک مذہب کی بنیاد پر تھی اور کانگریس کی سربراہی میں چلنے والی آزادی کی تحریک نیشنل ازم کی بنیاد پر تھی۔
پاکستان کو اپنے سیاسی نظام کا ڈھانچہ 1935ء کے انڈیا ایکٹ کے تحت بنانا پڑا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف لیا۔
ہندوستان میں گورنر جنرل کا عہدہ پہلی بار 1773 میں فورٹ ولیم میں وجود میں آیا جہاں وارن ہیسٹنگز کو پہلا گورنر جنرل بنایا گیا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے مقرر ہوا۔
پہلی جنگ آزادی میں انگریزوں کی فتح کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم کر دی گئی اور پھر 1858ء میں تاج برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم ہوئی تو گورنر جنرل کے عہدے کا دائرہ وسیع کر کے پورے ہندوستان پر نافذ کر دیا گیا۔
گورنر جنرل ہندوستان میں برطانوی حکومت کا نمائندہ کہلایا جاتا۔ اسی گورنر جنرل کو وائس رائے کا منصب بھی حاصل تھا۔
تقسیم ہند کے بعد وائس رائے کا عہدہ تو ختم کر دیا گیا لیکن برطانیہ نے علامتی طور پر گورنر جنرل کے عہدے کو برقرار رکھا۔
گورنر جنرل کا عہدہ 1935 کے انڈین ایکٹ کے تحت طاقتور ترین عہدہ تھا اور اس عہدے پر حلف لینے کے بعد پاکستان کا منتخب وزیراعظم بھی گورنر جنرل کے ماتحت قرار پایا.
9th شیڈول انڈین ایکٹ 1935 کے مطابق گورنر جنرل کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ کسی بھی قانونی بل کو آگے بڑھا سکتا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بطور گورنر جنرل اس ملک میں ایگزیکیٹو اختیارات استعمال کر کے پاکستان کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے خواہاں تھے۔
قائد اعظم کو وزیر اعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اُٹھانا چاہیے تھا یا پھر گورنر جنرل کے عہدے کا، اس پر ناقدین مختلف رائے رکھتے ہیں۔ بہرحال گورنر جنرل کا عہدہ خالی ہونے کے بعد ڈھاکہ کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔
واضح رہے کہ ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران خواجہ ناظم الدین بنگال کی وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر فائز تھے، لیاقت علی خان جب اکتوبر 1951 میں قتل ہوئے تو خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیر اعظم کی کرسی سنبھال لی۔
خواجہ ناظم الدین سے گورنر جنرل کا عہدہ واپس لیا گیا تھا اور انہیں وزارت عظمیٰ دی گئی وگرنہ وہ اس طاقت ور ترین عہدے کو ہرگز نہ چھوڑتے۔
جوں ہی خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے لیے گورنر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو آئین ساز اسمبلی کی کابینہ نے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کو ملک کا تیسرا گورنر جنرل نامزد کر دیا۔
غلام محمد کا نہ تو مسلم لیگی سیاست سے تعلق تھا اور نہ ہی وہ سیاسی کارکن تھے۔ وہ تو ایک بیوروکریٹ تھے جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی رضا مندی پر پہلی کابینہ میں بطور وزیر خزانہ شامل کیا گیا تھا۔
شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ موصوف نواب آف بہاولپور اور نظام حیدرآباد کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اور ان دونوں شخصیات کے قائد اعظم محمد علی جناح سے قریبی مراسم تھے۔
ملک کے تیسرے گورنر جنرل بیوروکریٹ غلام محمد کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو اُنہوں نے اپنے عہدے کے شخصی اختیارات کا استعمال کر کے 1953 میں وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا اور آئین ساز اسمبلی کو ختم کر دیا۔
گورنر جنرل کے اس اقدام کو آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت نے تمیز الدین کے حق میں فیصلہ سنا دیا، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر کے گورنر جنرل کے اقدام کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا۔
پاکستان کو سیاسی طور پر پہلا بڑا جھٹکا بیوروکریٹ غلام محمد نے لگایا جسے اب عدالت عظمیٰ آئینی جواز بھی فراہم کر چکی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ گورنر جنرل نے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزرات عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا۔
واضح رہے کہ یہ وہی محمد علی بوگرہ ہیں جو اُردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی مخالفت میں تھے جس پر اُنہیں پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاست سے الگ کر کے سفارتی مشن پر برما بھیج دیا تھا، اب یہی محمد علی بوگرہ پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم بن گئے تھے۔
یہ پاکستان کی قسمت تھی یا پھر ابتدائی سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت یہ فیصلہ ناقدین پر چھوڑتے ہیں۔ مگر گورنر جنرلوں اور پہلے تین وزراء اعظم کی تعیناتی میں جمہوری اُصولوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں تھیں تاہم غیر جمہوری فیصلوں کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑے۔
محمد علی بوگرہ نے گورنر جنرل غلام محمد کی ایماء پر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر کام شروع کیا تو وہ خود کو مضبوط وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے چنانچہ اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر اُنہوں نے گورنر جنرل کے قانونی اختیارات کو محدود کرنے کا منصوبہ بنایا اور انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ1947 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا۔
دستور ساز اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی جس کے مطابق ایکٹ کے آرٹیکل 9 ,10, 10B ,10A اور آرٹیکل 17 کو منسوخ کرنے کی تجویز دی گئی جسے اسمبلی نے فوری طور پر منظور کر لیا۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد اب گورنر جنرل کو یہ قانونی اختیار نہیں تھا کہ وہ منتخب وزیر اعظم کی چھٹی کروا سکیں۔
چنانچہ اسی اثناء میں وزیر اعظم محمد علی بوگرہ امریکا کے دورے پر روانہ ہوگئے اُن کے ساتھ ایوب خان، سر ظفر اللہ خان، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی بھی تھے۔
قرارداد کی منظوری کے بعد گورنر جنرل اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوا تو وہ دورہ ادھورا چھوڑ کر محمد علی بوگرہ واپس پاکستان پہنچے، گورنر جنرل نے 1954 میں دستور ساز اسمبلی کو ایگزیکیٹو اختیارات استعمال کرتے ہوئے تحلیل کر دیا۔
پاکستان کی ابتدائی سیاسی تاریخ پر دلچسپ مضامین
- انتقامی سیاست کے شکار حسین شہید سہروردی
- چوہدری محمد علی: 'بااثر بیوروکریٹ' یا 'معصوم وزیرِ اعظم'؟
- خواجہ ناظم الدین: وزارتِ عظمیٰ سے تنگدستی تک
اسی اثناء میں غلام محمد بیمار بھی ہوئے اس لیے دو مہینے چھٹی لے کر برطانیہ چلے گئے اور گورنر جنرل کا عہدہ میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا کو سونپ دیا گیا۔
گورنر جنرل بنتے ہی اُنہوں نے محمد علی بوگرہ کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔ معزول وزیر اعظم محمد علی بوگرہ جو گورنر جنرل کے اختیارات محدود کرنے کا قانونی حربہ بھی اختیار کر چکے تھے خود اپنی کرسی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
گورنر جنرل اسکندر مرزا نے ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب میں کہا کہ ملکی سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر وزیر اعظم کی چھٹی کروائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اسکندر مرزا معزول وزیر اعظم بوگرہ کی حکومت میں وزیر داخلہ، وزیر دولت مشترکہ اور امور کشمیر کے اہم ترین عہدوں پر فائز کیے گئے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ مشرقی پاکستان میں بطور گورنر بھی تعینات رہے۔
گورنر جنرل کے عہدے کی آڑ میں وزیر اعظم پاکستان پر ایک بار پھر وار کیا گیا تھا اور معزول وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو واپس امریکا میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔
اب گورنر جنرل اسکندر مرزا نے بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو 12 اگست 1955 کو وزیر اعظم پاکستان بنا دیا۔ یہ دوسری بار تھا کہ ایک سول سرونٹ پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا۔
یہ انتہائی غیر معمولی واقعات تھے جو گورنر جنرل کی کوکھ سے جنم لے رہے تھے۔ پاکستان کے پہلے آئین کے مسودے کی تیاری میں چوہدری محمد علی کی بھی خدمات ہیں تاہم مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی اختلافات بڑھنے کی بنا پر محمد علی پر دباؤ میں اضافہ ہونے لگا، انہی اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے ایک اور نئی جماعت ریپبلکن پارٹی وجود میں آگئی۔
اسی اثناء میں گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات بھی بڑھنے لگے جو بالآخر چوہدری محمد علی کے استعفیٰ پر ختم ہوئے۔ چوہدری محمد علی نے وزارت عظمیٰ بھی چھوڑی اور مسلم لیگ کی پارٹی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیا۔
نو سال بعد پاکستان کا پہلا آئین تیار ہوا اور اس آئین کی منظوری کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا جس کے بعد اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر صدارت کا حلف اٹھایا۔ اب گورنر جنرل کی جگہ صدر مملکت کا عہدہ وجود میں آگیا اور عوامی لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی کو 1956 میں وزارت عظمیٰ ملی۔
کیا حسین اتفاق تھا کہ گورنر جنرل اسکندر مرزا اور وزیر اعظم سہروردی دونوں کا تعلق بنگال سے تھا۔
سہروردی کو بھی بے شمار سیاسی چیلنجز کا سامنا تھا، خاص طور پر ملک میں ون یونٹ اسکیم پر مسلم لیگ، ریپبلکن پارٹی اور عوامی لیگ کا ون یونٹ پروگرام پر الگ الگ نکتہ نظر ہونے کی بنا پر وزیر اعظم سہروردی کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا۔
سہروردی نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کی تو اسکندر مرزا نے وزیر اعظم کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔ بالآخرسہروردی نے اسکندر مرزا کو استعفیٰ پیش کر دیا، پہلے گورنر جنرل وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے رہے اب صدر نے یہ ذمہ داری اپنے ذمے اٹھا لی تھی۔
سابق گورنر جنرل اور اس وقت موجودہ صدر پاکستان صاحبزادہ اسکندر علی مرزا نے ابراہیم اسماعیل چندریگر (آئی آئی چندریگر) کو قائم مقام وزیر اعظم کا عہدہ دے دیا۔
واضح رہے کہ آئی آئی چندریگر 1937 میں بمبئی میں مسلم لیگ کے صوبائی صدر بھی رہ چکے تھے اور پاکستان کی پہلی کابینہ میں تجارت و کامرس کے وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے تھے۔
آئی آئی چندریگر کو یہ عہدہ صدر اسکندر مرزا نے اپنی خواہش پر دیا تھا سو صدر نے اس وزیر اعظم کو بھی دو مہینے سے زیادہ ٹھہرنے نہ دیا اور 16دسمبر1957ء کو آئی آئی چندریگر سے استعفیٰ لے کر گھر روانہ کر دیا۔
بعد ازاں اسکندر مرزا نے ملک پر پہلا مارشل لا بھی نافذ کیا اور پاکستان کے سیاسی سفر اور جمہوریت کو پٹری سے اُتار دیا۔
یہی جمہوریت آج 70 سال بعد بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گورنر جنرل کے عہدے نے ملکی سیاست کے ساتھ جو بدتر سلوک کیا وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
پھر جب اسی گورنر جنرل کے عہدے کو آئین کے ذریعے صدر کے عہدے میں بدلا گیا تو بے پناہ طاقت ہونے کی بنا پر یہی صدر کا عہدہ ملک میں آمریت کے نفاذ میں معاونت کرتا رہا۔
قائد اعظم چاہتے تھے کہ اس منصب سے پاکستان کو ایک ایسا مضبوط جمہوری ڈھانچہ فراہم کیا جائے کہ جس سے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد یہ عہدہ طاقت کی ایک کرسی بن گیا جس کے گرد میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہو گیا۔
اس سے جمہوریت کی مضبوطی تو کیا ہوتی، آمریت کے ہاتھ ایسے مضبوط ہوئے کہ ان کے کمزور ہونے کے لیے اکیسویں صدی اور اٹھارہویں ترمیم تک کا انتظار کرنا پڑا۔