عمر اصغر خان: میرے والد، میرے ہیرو
عمر اصغر خان پاکستانی سیاستدان اور سماجی کارکن تھے۔ ان کی پیدائش 3 جولائی 1953 کو ہوئی۔ وہ قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اقتصادیات، فلسفہ اور سیاسیات پڑھاتے تھے۔
انہوں نے 'سنگی' نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی جسے مقامی سطح پر طبی سہولیات، جنگلات کے تحفظ، خواتین کو بااختیار بنانے اور دیگر کئی کاموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے قومی جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بھی قائم کی۔
وہ 25 جون 2002 کو پراسرار حالات میں انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی 14 ویں برسی ہے۔
میرا سب بڑا بیٹا اکثر مجھ سے پوچھتا ہے، "میرے نانا کہاں ہیں؟"
14 سال پہلے 2002 میں میں نے اپنے والد عمر اصغر خان کو کھو دیا تھا۔ اس وقت میں بہت چھوٹی تھی، مجھے شاید ایک دوسری زندگی جینی تھی، لیکن ان کی وفات نے مجھے بالکل نئے راستے پر ڈال دیا۔ اب وہ میری زندگی کی مرکزی شخصیت نہیں ہیں، بلکہ صرف ایک یاد ہیں، جسے دل سے لگا کر میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہوں۔
میرے شوہر اور بچوں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا، اس لیے اپنے والد کی یاد قائم رکھنا میری ذمہ داری ہے؛ اس پوری نسل کو ان سے متعارف کروانا، جس نے ان کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔
میرے والد کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ وہ ایک محبت کرنے والے والد، بیٹے اور بھائی تھے؛ صفِ اول کے ماہرِ معاشیات، سیاستدان اور سماجی کارکن؛ بے آواز لوگوں کی آواز؛ اور پریشان لوگوں کے دکھ سننے والے تھے۔
ہمیں ان کی وفات کے بعد ان کی شخصیت کے کئی دیگر پہلوؤں سے شناسائی حاصل ہوئی۔
کہتے ہیں کہ وہ اپنے لڑکپن میں بھی کرشماتی تھے۔ اپنے اسکول میں کھیلوں میں سب سے آگے آگے ہوتے، اور ہاکی اور تیراکی کی ٹیموں کے کپتان تھے۔ وہ شرارتی بھی تھے، اور اکثر اوقات ایک دو شرارتیں کر لیا کرتے، جیسے کہ کسی کے بیٹھنے سے قبل کرسی پر غبارہ رکھ دینا۔ اس طرح وہ یہ سکھانا چاہتے تھے کہ زندگی میں کسی چیز کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
میرے والد نے جو کچھ بھی کیا — چاہے وہ فوج میں ان کا وقت ہو، سیاست میں یا تدریس میں — انہوں نے ہمیشہ اس چیز کے لیے آواز اٹھائی جسے وہ درست سمجھتے تھے، پھر چاہے کچھ بھی ہو۔ میں ان کی غیر متزلزل اصول پرستی اور بھلائی کے لیے خاموشی سے کام کرنے پر ان کی شکرگزار ہوں، کیونکہ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے ہماری تربیت کی ہے۔
ان کا مطالبہ سادہ تھا: حقوق سب کے لیے
اسی چیز نے انہیں صاحبانِ اقتدار کی آنکھ کا کانٹا بنا دیا تھا۔ اپنے کریئر کی ابتداء ہی میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں جھوٹے الزامات کے تحت پنجاب یونیورسٹی سے فارغ کر دیا تھا، جس کے بعد انہوں نے میرے دادا کی سیاسی جماعت تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
بعد میں انہوں نے ملک بھر کا سفر کیا، دور دراز علاقوں میں عام لوگوں سے ملاقاتیں کیں، شہروں دیہاتوں میں گئے، لوگوں کے مسائل سنے، اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
وہ واپس آئے تو ان کے ذہن میں نت نئے خیالات اور جذبہ موجود تھا۔ انہوں نے سنگی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن قائم کی تاکہ پسماندہ طبقے کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جا سکے، ایک ایسے پرامن اور خوشحال معاشرے کی تشکیل دی جا سکے جس کی بنیاد سماجی انصاف، برابری اور مساوات پر ہو
پاکستان کے دور دراز علاقوں میں، جہاں اس وقت تک کوئی بھی نہیں گیا تھا، میں کئی لڑکیوں اور لڑکوں کو — جو انہیں جانتے بھی نہیں ہوں گے — تعلیم اور صاف پانی مہیا ہوا۔ انہوں نے انہیں آواز فراہم کی، انہیں سسٹم سے روشناس کروایا، مشکلات کے بارے میں بتایا، اور اپنے حقوق مانگنے سکھائے۔
ان کے نزدیک یہ افراد پاکستان کی تعمیرِ نو میں ان کے شراکت دار تھے۔
جو وقت انہوں نے ملک کے مختلف کونوں میں سفر کرنے میں گزارا، وہ وہی وقت تھا جو انہوں نے اپنے خاندان سے دور گزارا۔ مگر ہم نے اس کی مخالفت کبھی نہیں کیوںکہ وہ کئی پسماندہ پاکستانیوں کی زندگیاں تبدیل کرنے میں مصروف تھے۔
عمر اصغر خان کے نقوش
ان کی وفات کے بعد کے اندھیرے اور پریشان کن دنوں میں جس چیز نے ہماری ہمت بندھائی، وہ ان کے ایبٹ آباد میں ان کے جنازے میں آنے والے لوگوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کی تعداد تھی، جو صرف ان کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔
ہمیں کئی برادریوں نے بتایا کہ انہوں نے ہمارے والد کو اپنا سمجھ کر اپنے قبیلوں اور برادریوں میں شامل کیا تھا۔ یہ دل گرما دینے والی اور حیران کن باتیں تھیں، کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی کسی غیر کے ساتھ اتنی اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ایک بوڑھے شخص، جو سنگی فاؤنڈیشن میں ڈرائیور تھے، نے بتایا کہ جب بھی وہ میرے والد کو دور دراز کے دیہاتوں تک لے جاتے، تو میرے والد کبھی بھی سونے کے لیے الگ کمرے کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ سب لوگوں کے ساتھ ہی سو جاتے۔
جب میں ان کی یادوں کو کھنگالتی ہوں، تو ایک یاد ایسی ہے جو سب سے منفرد ہے، اور مجھے ماضی میں لے جاتی ہے۔ سنگی میں ان کے دنوں کے دوران میرے والد نے داڑھی بڑھا لی اور شلوار قمیض پہننے لگے۔ میں اس وقت ایک ٹین ایجر تھی، اور ان کا یہ روپ مجھے شرمندہ کر دیتا، خاص طور پر تب جب میری ایک دوست نے مجھے کہا، "دیکھو تمہارا ڈرائیور تمہیں لینے کے لیے آیا ہے۔" مجھے آج ان کے اس عاجزانہ روپ پر فخر ہے۔
مشرف کے دور میں بحیثیتِ وزیرِ بلدیات و دیہی ترقی وہ روز اپنے مصروف روٹین میں سے دو گھنٹے نکال کر عوام سے ملاقات کرتے۔ ہر صبح جب ہم اسکول کے لیے تیار ہو رہے ہوتے، تو گھر کے باہر لوگوں کی ایک لمبی قطار ہوتی جو حکومت یا دیگر رہنماؤں کے خلاف شکایتیں لیے کھڑے ہوتے۔
وہ انہیں بطورِ مہمان گھر لے آتے، اور وہ لوگ ہمارے ساتھ ہی کھاتے پیتے۔ ہمارے گھر میں موجود سرکاری عملہ اور سکیورٹی اہلکار اس صورتحال سے پریشان ہوجاتے کیونکہ انہوں نے کبھی بھی کسی وفاقی وزیر کے گھر میں ایسی رونق اور بے تکلفی نہیں دیکھی تھی۔
میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے میرے والد سے سیکھیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلیں؛ ہمیشہ پسے ہوئے اور مظلوم لوگوں کے لیے بے خوف ہو کر آواز اٹھائیں۔
میرے لیے وہ ان تمام افراد میں زندہ ہیں جنہوں نے ان سے ملاقات کی، اور جن کی زندگی میں ان کی وجہ سے تبدیلی آئی۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ میں ان کی بیٹی ہوں، تو ان کا اظہارِ محبت قابلِ دیدنی ہوتا ہے۔ میرے والد اسی محبت میں زندہ ہیں۔
لہٰذا میں اپنے پانچ سالہ بیٹے کو ہمیشہ یہی کہتی ہوں: آپ کے نانا ہم سب میں ہیں۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔