کیا دنیا کا مستقبل مرغیاں بدلیں گی؟
یہ دعویٰ ایک خبر کی صورت میں سوالیہ نشان لیے میرے سامنے پڑا ہے، اس خبر کے پیچھے دنیا کے امیر ترین اشخاص میں سے ایک ہے جس کا نام آپ نے سن رکھا ہے — بل گیٹس — جس کی خواہش تھی کہ ہر گھر کے آنگن میں اس کی کمپنی کی مصنوعات جلوہ افروز ہوں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔
مائیکروسافٹ سے دنیا میں اب کون آشنا نہیں، چاہے ایپل کے کمپیوٹر تکنیکی اعتبار سے جتنے بھی آگے ہوں، عام آدمی آج بھی بل گیٹس کی بنائی ہوئی ونڈوز کو ہی آسان اور کم قیمت ہونے کی وجہ سے ترجیح دیتا ہے۔ پھر اس شخص نے اپنی دولت کو مثبت سمت میں استعمال کرتے ہوئے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی صورت میں دنیا میں زندگی کے چہرے کو رونق بخشنے کا اہتمام کیا۔
ابھی تازہ خبر یہ ہے کہ بل گیٹس غریب ملکوں میں لاکھوں مرغیاں بانٹنے کا ارادہ کر رہے ہیں تاکہ عام آدمی کی زندگی میں بڑے عام انداز میں بہتری لائی جا سکے۔ آج کل آپ اکثر تصاویر میں بل گیٹس کو ہاتھوں میں مرغیاں تھامے دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے ان پرندوں کے توسط سےایک پرانا خواب دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
لوگوں کے بدن کو پوشاک زیبا دینے کا خواب، بلکتے بچوں کی آنکھوں میں روشنیاں بانٹنے کا خواب، فقیروں کی جھونپڑیوں میں روٹی دینے کا خواب، برابری، مساوات جیسے بڑے خوابوں کی تو بات چھوڑیے، بس ایک مناسب سے گزر بسر والی زندگی کا خواب دیکھا ہے۔
وہ خواب جو دنیا میں سینکڑوں لوگوں نے دیکھا، وہ سہانا خواب ہے اس دنیا سے غربت کا خاتمہ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی عبدالستار ایدھی کا ایک فقرہ میری سماعتوں پر ہتھوڑے برساتا گزر گیا تھا کہ ''مجھے افسوس ہے کہ میں غربت کا خاتمہ نہیں کر سکا۔'' اس ایک فقرے میں ساری زندگی فاتح جیسی زندگی گذارنے والے شخص کی آنکھوں میں شکست خوردہ سپہ سالار کے آنسو شامل ہیں۔
خوبصورت ذہنوں والے انسانوں نے ہمیشہ اپنے محروم ہم جنسوں کو نوازنے کو اپنی زندگی کا مطمع نظر قرار دیا۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، کتنے اچھے لوگ اپنے اپنے حصے کی شمع جلائے مصروف عمل نظر آجائیں گے۔ پاکستان میں اخوت ہو یا فرض فاونڈیشن، سب نے اپنے اپنے انداز میں اندھیروں میں روشنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔
خانیوال کے نواح میں مسعود چوہان صاحب 'برکت پروجیکٹ' سے وابستہ ہیں جو کسانوں کو دودھ دینے والے جانور فراہم کر کے ان کی زندگی بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے پہلے مختلف این جی اوز نے گھریلو پیمانے پر سبزیاں اگا کر اور دودھ کے لیے ایک بکری اور انڈوں کے لیے ایک مرغی کا ایک پیکج بنا کر پاکستان کے کچھ علاقوں میں لوگوں کو زکوۃ کی سطح سے اوپر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
یہ سبھی پراجیکٹس بہت محدود پیمانے پر، چھوٹے علاقوں کی حد تک ہی اپنا اثر دکھا سکے مگر عالمی سظح پر غربت سے جنگ لڑنے کے لیے عالمی درجے کی تیاری کی بھی ضرورت ہے۔
اب بل گیٹس جیسے شخص کا اس عفریت کے مقابل آنا ایک بڑی خبر سے کم نہیں، اور انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ غریب ملکوں میں مرغیاں بانٹی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرغیاں اپنی غذائی ضروریات کے لیے بہت زیادہ انسانوں پر انحصار نہیں کرتیں اور ان کی نگہداشت قدرے آسان بھی ہے۔ ان کو پال کر بہت سے لوگوں کی زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق عمومی سوچ ہے کہ مرغیاں پالنے کا مقصد صرف انڈے کھانا ہوسکتا ہے، مگر بہت سارے کسان مرغیوں کے انڈوں کو کھانے کے بجائے انہیں معاشی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ان انڈوں سے چوزے نکلنے کا انتظار کرتے ہیں، انہیں پالتے ہیں اور پھر انہیں بیچ کر اپنے لیے کھانا خرید کرتے ہیں۔
مرغیوں کی اتنی تعریف و توصیف کے بعد آپ کو تھوڑا بہت یقین تو آ ہی گیا ہوگا کہ مرغیوں سے آنے والے وقت کا دھارا بدلا جا سکتا ہے۔
لیکن جن ممالک میں مرغیاں بانٹی جائیں گی اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کام لیے پاکستان کو بل گیٹس کی بھی ضرورت نہ ہو، ہم پاکستانی مل کر موقع کی اس کھڑکی سے اپنے لیے نئی روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں غربت کا عفریت لوگوں کی گذر بسر کا دشمن ہے۔ جن لوگوں کے پاس زمینیں بہت کم ہیں وہ دو چار مرغیوں اور ایک آدھ بکری سے اپنی زندگی کا نقشہ بڑی حد تک سدھار سکتے ہیں۔
ایسے بہت سے لوگ ہماری امداد کے منتظر ہیں، ہماری کی ہوئی مدد بہت سے لوگوں کے مسائل حل نہیں کر پاتی لیکن اگر ہم اسی سال طے کر لیں کہ اپنی زکوۃ کی مدد سے غربا کو مرغیاں اور بکریاں لے کر دے دیں تو 'چکن میتھ' کے تصور کے مطابق بل گیٹس کا کہنا ہے کہ سالانہ آمدنی ایک ہزار ڈالر تک پہنچائی جا سکتی ہے۔
اگر مرغیوں کی مدد سے لوگوں کی یومیہ آمدنی کو ایک ڈالر سے بڑھا کر تین ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے تو اس حل کو اپنانے میں کیا امر مانع ہے؟
ایک دروازہ کھلا ہے، ایسا راستہ جو ہمیں پہلے بھی معلوم تھا، بس اس پر چلنا باقی ہے۔
وہ کام جو عبدالستار ایدھی سے نہ ہو سکا، ہو سکتا ہے کہ آپ اور ہم مرغیوں کے ذریعے کر ڈالیں؟
تبصرے (10) بند ہیں