کیا آپ اس رمضان فِٹ رہنا چاہتے ہیں؟
میرے خیال میں ہم سب اس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ جب بھی ماہ رمضان موسم گرما میں آتا ہے تو روزے سخت اور دشوار ہوجاتے ہیں۔ حتٰٰی کہ سخت گرمی میں تھوڑی چہل قدمی سے بھی ہمارے جسم سے نمکیات کا کافی مقدار میں اخراج ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جتنا جلدی ہو سکے اتنا جلدی گھر پہنچ کر ایئر کنڈیشنر سے آراستہ اپنے بیڈ رومز میں خود کو محصور کر دیتے ہیں۔
مگر جناب میرا یہ مضمون رمضان میں ورزش کے متعلق ہے۔
آپ سوچ رہے ہیں ہوں گے کہ میں یہ کیا احمقانہ بات کر رہی ہوں؟
کیا روزں کے دوران ہم کام کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اور گھر بھی چلاتے ہیں، اتنا کافی نہیں؟ کیا ورزش جیسا اضافی بوجھ بھی لازمی ہے؟
پہلا کام
اس سے قبل کہ ہم رمضان میں ورزش کیوں اور کیسے کی جائے پر غور کریں، میں سب سے پہلے یہاں ہماری جسمانی حرکت یا موومنٹ کے بارے میں بات کروں گی جو کہ رمضان کے دوران کم ہو جاتی ہے۔
مومنٹ یا حرکت سے میری مراد چلنے، جھکنے، چڑھنے، دھکیلنے، اٹھانے جیسے عوامل سے ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ان روزمرہ کی حرکات سے خون کی روانی بہتر ہوتی ہے، جسم کی اکڑ میں کمی اور بلڈ پریشر بحال رہتا ہے، اور فضول مادے کو خارج کرنے میں مدد ملتی ہے، یہاں تک اس طرح اینڈروفنز نامی ہارمونز بھی خارج ہوتے ہیں جو ہمارے موڈ کو بہتر کرنے میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے رمضان کے دوران ہماری روزمرہ کی حرکات یا موومنٹ کی سطح بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ ہم نے خود کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کی عادت ڈال دی ہے، چاہے پھر وہ روزے کے دوران زیادہ وقت نیند کرنا ہو یا پھر خود کو صرف کمرے تک محدود کر لینا ہو۔
بلاشبہ ایسی عادات ہماری مجموعی صحت کے لیے اچھی نہیں ہیں۔ پورے دن میں کم جسمانی حرکات سے خون کی روانی بہتر انداز میں نہیں ہو پاتی، جوڑ اکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں شدید درد اور تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ ہمارے موڈ بھی چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے۔
تو جناب رمضان میں ورزش کے بارے میں سوچنے سے بھی پہلے آپ کو عام دنوں سے زیادہ جسمانی حرکات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک بار یہ عادت بنانے کے بعد ہم ان کے صحت مند فوائد کو روزمرہ کی جسمانی ورزش کے ذریعے مزید بڑھا سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہر شخص کی صحت اور اس کے ذاتی جسمانی حالات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا اگر آپ رمضان کے دوران ورزش کرنے کے قابل نہیں ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
میں آپ کو یہاں واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ اگر ورزش درست طریقے سے کی جائے تو رمضان کے دوران ورزش کرنا نقصاندہ نہیں ہے،
بلکہ، مثلاً اگر آپ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو جسم میں اضافی فیٹ پگھلانے کی شرح بڑھانے کے لیے ماہ رمضان ایک بہترین وقت ہے۔
کس وقت ورزش کرنا بہتر ہوگا؟
ورزش کے لیے اچھا وقت وہی ہوتا ہے جس کے فوراً بعد آپ اپنے جسم میں غذا مہیا کر سکتے ہوں۔ کیونکہ آپ کے جسم کو اپنے اندر پانی کی مقدار بحال رکھنے اور اس طرح الیکٹرو لائٹس کے تناسب میں بہتری لانے اور اعصابی لاغری (مسل ایٹروفی) سے محفوظ رکھنے کے لیے خوراک اور پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔
ورزش کے لیے رمضان میں جن اوقات کا آپ انتخاب کر سکتے ہیں ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
فجر سے پہلے ورزش
چونکہ فجر کا وقت قریب صبح 4 ہوتا ہے تو سحری کھانے سے پہلے ورزش کے لیے 3 بجے شاید آپ جاگنا نہ چاہیں۔ اگر آپ جاگتے ہیں تو آپ کی ہمت کو داد دینا پڑے گی۔ مگر ایک بات ذہن نشیں کرلیں کہ ورزش سے 'کورٹی سول' کی سطح بڑھ جاتی ہے جس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ ورزش کے بعد دوبارہ نیند کرنے میں دشواری پیدا ہو جاتی ہے۔
افطار سے پہلے ورزش
شروع شروع میں ایسے وقت میں ورزش کی عادت ڈالنا شاید مشکل ہو لیکن اگر آپ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو ورزش کرنے کا یہ ایک بہترین وقت ہے۔ روزے کی حالت میں ورزش کرنے سے آپ کے جسم کو فیٹ کو تیزی سے پگھلانے کی قوت فراہم ہوگی ہے اور اس کے بعد آپ افطار کر کے اپنے جسم کو غذا بھی فراہم بھی کر پائیں گے۔
افطار کے بعد اور عشاء سے پہلے
ورزش کے لیے اس وقت کے انتخاب کا انحصار زیادہ تر آپ کے علاقے کے ٹائم زون پر ہے اور اس میں آپ کو کافی احتیاط کے ساتھ ورزش کی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ پاکستانی ہیں اور آپ کے یہاں افطار کا وقت شام 7 اور 7 بج کر 30 منٹ کے درمیان ہے تو پھر آپ ایسا کریں کہ افطار کے دوران کھجور، پانی اور فروٹ جیسی ہلکی پھلکی خوراک، کم مقدار میں کھالیں۔ مغرب کی نماز پڑھ لیں، 8 بجے کے قریب 20 سے 30 منٹ کے اندر ورزش کر لیں جس کے بعد رات کا کھانا کھالیں اور پھر عشاء کی نماز پڑھ لیں۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے گھر میں افطار رات کا کھانا ساتھ ہی پیش کیا جاتا ہو یا اگر آپ کا گھرانہ کافی بڑا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو 10 تک (یا اس کے بعد بھی) فراغت نہیں مل سکتی، خاص طور اگر آپ رات کے وقت باقاعدگی سے تراویح بھی پڑھتے ہیں۔
اگر آپ بیرون ملک مقیم ہیں اور وہاں وقت قریب قریب 8 بج کر 30 یا 9 بجے روزہ افطار ہوتا ہو؟ تو میں آپ کو افطار کے بعد ورزش کرنے کا مشورہ نہیں دوں گی۔
کیونکہ، اگر دیکھا جائے تو رات 9 بجے سے پہلے ورزش کرنا ممکن نہیں ہو پائے گا جس وجہ سے آپ کو مقررہ وقت پر کھانا کھانے اور سونے میں بھی دیر ہو سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سونے سے تھوڑا وقت پہلے ورزش کرنے اور بڑی مقدار میں کھانا کھانے سے نیند آنے میں بھی دشواری پیدا ہو جاتی ہے۔
مجھے کن اقسام کی ورزشیں کرنی چاہیے؟
اگر آپ افطار سے پہلے ورزش کر رہے ہیں تو آپ کو 20 سے 45 منٹوں کے لیے جاگنگ، بائیکنگ یا یوگا جیسی ہلکی ورزشوں کی عادت ڈالیں۔ اگر آپ کم وقت میں سخت ورزش کرنا چاہتے ہیں تو آپ 10 سے 20 منٹ باڈی ویٹ ورک آؤٹ کر سکتے ہیں۔
اگرچہ آپ ویٹ ٹریننگ کو بھی ورزش میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ ایسا آپ روزہ افطار کے بعد ہی کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت بخش ورزش (Strength traning) کے لیے بہتر طاقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور آپ کا جسم یہ طاقت پٹھوں میں جمع گلائیکوجن (کاربس) میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے گلائیکو جن کی سطح کم ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کا جسم ورزش لائق طاقت پیدا نہیں کر پائے گا یا یوں کہیں کہ ورزش کو نتیجہ خیز نہیں ہو پائے گی۔
چوں کہ آپ کا جسم ورک آؤٹ یا تن سازی کی ورزش کو تقویت بخشنے کے متبادل پروٹین کو توڑتا ہے، اس طرح آپ نہ صرف آپ خود کو امکانی طور پر زخمی کر سکتے ہیں بلکہ اس کے منفی اثرات سے آپ کے مسلز کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم افطار کے بعد جب وزن اٹھائیں تو وقت کا دورانیہ عام دنوں سے کم کر دیں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو وزن بھی ہلکا کر دیں۔
آخر میں میں یہ کہوں گی کہ رمضان کے دوران اپنے جسم کا احترام کریں۔ احترام سے مراد اپنے جسم کو مناسب حرکات دیتے رہیں مگر شدید مشقت سے بھی دوچار نہ کریں۔
تبصرے (3) بند ہیں