بلاول اور پنجابستان
اگر بلاول نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے سیاست سیکھی ہوتی تو وہ پنجاب اور پنجابیوں کو طعنے دینے میں غلطاں رہنے کی بجائے پنجابیوں کے دل جیتنے میں رُجھ جاتے مگر بلاول تو لگتا ہے کہ بابر اعوان، ذولفقار مرزا اور فیصل رضا عابدی جیسوں کی تقلید میں “پریشان” ہیں۔
یوں لگتا ہے وہ شدید اضطراب کی حالت میں ہیں یا پھر ان کے مشیر ان سے ایسے بیان دلوا رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے ہمدرد بھی آصف زرداری کی واپسی کی طرف راغب ہوں۔ یہ باپ بیٹے میں سیاسی کشمکش ہے یا پھر تجزیے کی غلطی مگر اس کھیل میں پنجاب اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جائے گی کہ اسے پاٹنا پھر کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بلاول کے "پنجاب مخالف" بیانات درحقیقت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے باعث صد اطمینان ہیں۔
تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو پنجاب کئی صدیوں سے اس خطے کی سیاست کا طرہ امتیاز رہا ہے جس میں کشمیر، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور سندھ شامل ہیں۔ جلال الدین اکبر دہلی سے اپنا تخت اٹھا کر لاہور آکر پورے 10 سال بیٹھا رہا اور یہاں بیٹھ کر کشمیر، اٹک اور ٹھٹھہ سے سمندر کو جاتے رستے پر "لاہوری بندر" یا لاہوری ڈاہرو کی مہمیں سر کیں۔
یہی نہیں بلکہ 1767 سے 1849 تک اس خطے میں آزاد و خودمختار حکومتیں رہیں کہ "سہہ حاکمان لاہور" نے پورے 30 سال جبکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لاہور دربار نے پورے 50 سال راج کیا۔
1839 میں رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد اس خطے میں انگریزی تسلط کیسے مضبوط ہوا کہ پہلے قلات، قندھار و کابل پر 1940 میں انگریزی قبضہ ہوا پھر 1843 میں سندھ، 1846 میں کشمیر اور 1849 میں پنجاب بھی انگریزوں نے سرنگوں کر لیا۔
انگریزی دور میں بھی پنجاب نے اس خطے کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 20 ویں صدی میں ایک طرف پنجاب نے پگڑی سنبھال جٹا (1906)، غدر تحریک (1914)، جلیانوالہ باغ قتلام کے خلاف تحریک (1919)، تحریک خلافت (1920)، 56 فیصدی تحریک (1926)، ڈوگرہ راج مخالف تحریک (1931) اور تحریک پاکستان (1940-47) میں بھرپور حصہ ڈالا تو دوسری طرف میاں فضل حسین اور یونینسٹ پارٹی نے سیاسی و تعلیمی محاذ پر فقید المثال کامیابیاں حاصل کیں۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی چھپی کتاب ''ہندوستان میں تعلیم 1865 سے 1965 تک'' کے مصنفین یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوئے کہ میاں فضل حسین کی بدولت پنجاب کے دیہاتوں میں 1927 سے 1936 کے درمیان ہزاروں اسکول کھولے گئے جو تناسب کے حساب سے پورے ہندوستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے۔
یہی نہیں بلکہ 1937 کے انتخابات میں پنجاب و بنگال ہی تھے جنہوں نے کانگرس کی حاکمیت کو چلینج دیا اور کانگریس ان صوبوں میں اقلیت بن کر رہ گئی۔ مسلم اکثریتی صوبوں کے سیاست میں کلیدی کردار کی خبر بھی ایک پنجابی ہی نے الٰہ آباد جا کر1930 میں دی جو تحریک پاکستان کی بنیاد ٹھہری۔
قائداعظم نے 1938 میں سکندر جناح معاہدہ کر کے اس ویژن کو سیاست کا حصہ بنایا کہ یوں مسلم لیگ پنجاب میں پھلنے پھولنے لگی۔ 1940 کی قرارداد لاہور اس نئے سیاسی ویژن کا برملا اظہار تھا کہ جس کے بعد کانگرس کے ستاروں میں روشنیاں مدھم ہونے لگیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے خطے میں پنجاب کی سیاسی حیثیت قیامِ پاکستان سے قبل ہی مسلمہ تھی۔ 1946 کے انتخابات میں جب پنجابیوں نے بمبئی (حالیہ ممبئی) کے محمد علی جناح پر اعتماد کیا تو پنڈت نہرو نے خان عبدالغفار خان کو کہا کہ پنجاب آپ کو کھا جائے گا۔ یہ بات جسونت سنگھ نے قائداعظم کے بارے میں لکھی اپنی کتاب میں حوالے کے ساتھ لکھی ہے جب نہرو کابینہ مشن کے خلاف خان صاحب کو اپنے ساتھ ملا رہے تھے۔ یہی وہ سیاست تھی جسے قیام پاکستان کے بعد بعض عناصر نے بوجوہ بڑھاوا دیا۔
قائداعظم کے بعد پنجاب کی سیاسی قوت کو عوامی مفاد سے سانجھا کرنے کی بصیرت ذوالفقار علی بھٹو نے دکھائی کہ جناح و بھٹو دونوں ہی غیر پنجابی رہنما تھے جن پر پنجاب نے بھرپور اعتماد کیا۔
کیا یہ پنجاب کو سمجھنے کی واضح مثاالیں نہیں۔ بھٹو لاڑکانہ سے لاہور گئے اور اپنی پارٹی کی بنیاد تخت لاہور میں رکھی کہ اس پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کو تارے دکھا دیے۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور 10 اپریل 1986 کو آمر مطلق ضیاالحق کو لاہور ایئرپورٹ پر اتر کر کھلا چیلنج دیا۔
یہی وجہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا جنازہ نکالنے میں سرگرم عمل رہی۔ 1988 کے بعد آئی جے آئی بنا کر جس میاں نواز شریف کو پنجاب میں پیپلز پارٹی سے لڑانے کے لیے تیار کیا گیا 2006 میں اسی نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ترپ کا پتہ کھیلا۔ جس مفاہمت کو محترمہ نے اپنی سیاست میں سمویا اسے زرداری صاحب نے "چالاکیوں" کی نذر کر ڈالا۔
یہ ہے وہ سیاسی پس منظر جسے بلاول کو یاد رکھنا چاہیے۔ ایک طرف یہ حال ہے کہ بلاول بوجوہ پارٹی کی اُن پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کر سکے جن کی وجہ سے پارٹی پنجاب میں مسلسل ناکامیوں میں گھری ہے۔ بلاول تو منظور وٹو کو بھی نہیں ہٹا سکے جنہیں محلاتی سازشوں اور رسہ گیری ہی کا تجربہ ہے کہ انہیں تو پی پی پی کے جیالوں کے نام بھی نہیں آتے۔ نئے صوبوں کے حوالے سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی پالیسی کچھ اور ہے جبکہ سندھ میں وہ کسی نئے صوبہ کے سرے سے خلاف ہیں۔
کسی بھی برادری، کمیونٹی یا قومیت کو بحیثیت مجموعی نشانہ بنانا وہ ناعاقبت اندیش پالیسی ہے جس کی کوکھ سے نفرتیں ہی جنم لیتی ہیں۔ بنیادی بات یہی ہے کہ جیسے طالبان مخالفت اور پختونوں کی مخالفت میں فرق ہے، جیسے الطاف حسین یا ایم کیو ایم مخالفت اور کراچی حیدرآباد کی اُردو بولنے والی برادری کی مخالفت میں فرق ہے ویسے ہی شریفوں کی مخالفت اور پنجاب مخالفت میں فرق ہے۔
اسی فرق کو بھٹو، بے نظیر تو اپنی سیاست میں ملحوظ خاطر رکھتے تھے کہ زرداری و بلاول کو بھی اس کو سمجھنا چاہیے۔ ایسی پالیسی پیلپز پارٹی کی روایات سے متصادم ہے کہ بے چارے قمر زمان کائرہ بھی "پنجابستان" کے حوالے سے دیے گئے بلاول بھٹو کے بیان کا دفاع نہ کر سکے حالانکہ وہ خود بھی ماضی میں ایسے ہی بیانات داغتے رہے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اب بلاول کو محترمہ بے نظیر کی طرح ''چاچوں'' یعنی انکلز سے جان چھڑا کر پارٹی پالیسی پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔ پارٹی کو دوبارہ سے چاروں صوبوں کی زنجیر بنانا اور پچھڑے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرنا وہ پالیسی ہے جو پیپلز پارٹی کی پہچان رہی ہے۔ نفرت کی سیاست سے بلاول پارٹی کی تطہیر کے عمل کو اور زیادہ تیز کر رہے ہیں کہ یہ لمحہ فکر ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں