• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

سنہری ہندو اور ملائی والی چائے

شائع June 7, 2016
میں نے کہا چھوٹا بڑا ہندو کیوں ہوتا ہے؟ ملّو بولا یہ ان کا آپسی معاملہ ہے۔  سیوا بڑا ہندو ہے اس لیے مسلمان والے سفید کپ میں چائے پیتا ہے — تصویر صاحب خان
میں نے کہا چھوٹا بڑا ہندو کیوں ہوتا ہے؟ ملّو بولا یہ ان کا آپسی معاملہ ہے۔ سیوا بڑا ہندو ہے اس لیے مسلمان والے سفید کپ میں چائے پیتا ہے — تصویر صاحب خان

سنہری ہندو سے قطعاً مراد یہ نہیں کہ ہم سنہری رنگ کے ہندوؤں کا ذکر کر رہے ہیں۔ میرا بچپن میرپورخاص کے محلے لال چندآباد بلوچ پاڑا میں گزرا۔ ہمارے محلے کے آغاز میں ایک سڑک سندھڑی روڈ کے نام سے مشہور تھی (جسے اب سر سید روڈ کا نام دے دیا گیا ہے)۔

اس سڑک پر میرپور خاص کا بازارِ حسن بھی آباد تھا، جو غریب آباد اور لال چند آباد کے سنگم پرواقع تھا۔ جب شہر گنجان آباد ہونے لگا تو اس بازار کو اس وقت کے مضافات یعنی کھپرو بس اسٹینڈ کے قریب منتقل کر دیا گیا۔

جب آبادی اور بڑھی تو اسے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے والی ایک نہر کے کنارے آباد کیا گیا، گو کہ اس نہر کا نام ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کے سرکاری رکارڈ میں میرپور خاص مائنر ہے، لیکن اب یہ چکلے والی شاخ کے حوالے سے معروف ہے، اس بازارِ حسن کی داستان بہت دلچسپ ہے جو پھر کبھی بیان کریں گے۔

سندھڑی روڈ پر ملّو ماما کی ایک جھگی نُما ہوٹل تھا۔ ہوٹل کا کُل اثاثا لکڑی کی تین ٹوٹی پھوٹی بینچیں، ایک روالونگ چیئر جو اپنے اوپری حصے سے روالونگ لگتی تھی، اس کے نچلے حصے پر کسی فنکار نے اس خوبصورتی سے اینٹیں لگائی تھیں کہ کرسی سے ادھر ادھر گھمانے کے علاوہ بیٹھنے کا کام اچھے طریقے سے لیا جاسکتا تھا۔

ہوٹل کے اوقات کار نماز فجر سے لے کر نماز عصر تک محدود تھے، اس کی وجہ ہوٹل کی بجلی سے محرومی تھی۔ ہوٹل کا اندرونی حصہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا تھا۔ ہوٹل کی آمدنی کی ایک بڑی وجہ ہوٹل کے ساتھ قائم ایک بیکری تھی جس کے بنائے ہوئے پاپے پورے علاقے میں مشہور تھے اور لوگ، چائے پاپے کا ناشتہ ملّو کے ہوٹل سے کرتے تھے۔

اس ہوٹل کی خاص بات ملائی والی چائے ہوتی تھی۔اس چائے کی قیمت تیس پیسے تھی۔ یہ چائے چینی کے سفید پیالوں میں پیش کی جاتی تھی۔ جب ہمارے دوست اپنی جیب خرچ سے اتنے پیسے بچا لیتے تھے تو ہم سب وہاں چائے پینے جاتے تھے۔ یہ موقع مہینے میں ایک آدھ بار ہی پیش آتا تھا۔

چائے مزیدار بھی ہوتی تھی اور کپ بھی صاف ستھرے ہوتے تھے، ملّو ماما ہمیشہ افیم کے نشے میں مسرور رہتے تھے لیکن، جب بھی ہم لوگ وہاں جاتے تھے تو وہ کہتے ’’لڑکے آگئے، خیال رکھو‘‘۔

اس جھگی نُما ہوٹل کے درمیان چائے بنانے والے کاؤنٹر کے عین اوپرایک ٹوٹی پھوٹی لکڑی کی تختی پر چار سے پانچ سنہری رنگ کے کپ رکھے ہوتے تھے، مجھے وہ کپ بہت اچھے لگتے تھے۔ جب ہم چائے پی رہے ہوتے تھے تو اچانک ملّو ماما کی آواز آتی تھی’’ دو چائے سنہری‘‘ ہوٹل اسٹاف ایک ہی فرد پر مشتمل ہوتا تھا جو چائے بناتا بھی تھا اور لوگوں کو پیش بھی کرتا تھا۔ سنہری کپ سنتے ہی اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں ہوجاتے اور وہ ہوٹل کے پچھواڑے میں گٹر کے کنارے بیٹھے ہوئے لوگوں کو سنہری کپوں میں چائے پیش کرتا تھا۔

مجھے چینی کی صاف و شفاف پیالیاں ان سنہری کپوں کے مقابلے میں بہت بے توقیر معلوم ہوتی تھی۔ میری خواہش تھی کے کبھی ملّو ماما سے کہوں کہ مجھے بھی سنہری کپ میں چائے دیں، لیکن ہمت نہ ہوئی۔

جب میں کچھ بڑا ہوا اور پرائمری پاس کر کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا تو یہ احساس ہوا کہ اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ تو ایک دن میں نے ملّو ماما کو حکمیہ انداز میں کہا کہ ملائی والی چائے سنہری کپ میں دو، ملّو نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ’’چھورا! چریو آھیں چھا‘‘ (لڑکے پاگل ہوگئے ہو کیا) میں نے کہا کیوں؟ ملّو بولا یہ کپ ہندو کا ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ پرچون والے سیوا چند کو تو تم سفید کپ میں چائے دیتے ہو، وہ بھی تو ہندوہے۔’’چھوکرا کچھ سمجھ کرو‘‘ وہ بڑا ہندو ہے۔ میں نے کہا چھوٹا بڑا ہندو کیوں ہوتا ہے؟ ملّو بولا یہ ان کا آپسی معاملہ ہے۔ میرے کو کیا پتا؟ سیوا بڑا ہندو ہے اس لیے مسلمان والے سفید کپ میں چائے پیتا ہے۔ مسلمان کو بھی اس پر اعتراض نہیں۔ وری میرے کو کیوں ہو؟

یہ تو تھی ماضی کی بات۔ مئی 2016 ء میں میرا خاندان گلستانِ جوہر سے کراچی کے اولڈ ایریا یعنی ماما پارسی اسکول کے عقب میں واقع مارشل اسٹریٹ پر قائم کوہ نور پلازہ میں منتقل ہوا، کوہ نور پلازا کے ایک نوٹس بورڈ پر ایک دن اچانک میری نظر پڑی، اس بورڈ کے 13 ویں نقطے پر درج تھا کہ’’گراؤنڈ میں بھجن یا پوجا وغیرہ کی ہرگز اجازت نہیں ہے‘‘ گو کہ اس پلازہ میں ہندو اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔

کوہ نور پلازا پر لگا نوٹس بورڈ — تصویر اختر بلوچ
کوہ نور پلازا پر لگا نوٹس بورڈ — تصویر اختر بلوچ

ہمارے ایک دیرینہ رفیق پریس کلب حیدرآباد کے سابق صدر مہیش کمار جو غالباً نہیں بلکہ یقیناً پاکستان بھر میں کسی اخبار کے واحد ہندو ایڈیٹر ہیں، صحافت سے قبل محکمہ موسمیات کراچی میں ان کی تقرری ہوئی۔ ابتداء میں تو ان کے برتن الگ کردیے گئے، جس کا انہوں نے بلکل برا نہیں مانا اور نہ ہی اس پرکوئی احتجاج کیا۔

پھر آخر ایک دن ان کے باس نے انہیں دفتر میں طلب کیا اور ادِھر ادھر کی باتیں کرنے کہ بعد کہا کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا ہے، میرا خیال ہے کہ برگر منگوائے جائیں۔ مہیش کمار کو اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی، انہوں نے کہا، ضرور، باس نے کہا یہاں بیف برگر ملتے ہیں میرے لیے تو ایک کافی ہوگا، آپ فرمائیے، مہیش کمار سمجھ گئے کہ باس کیا کہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے باس سے کہا کہ میرے لیے دو بیف برگر منگوائیے گا۔ اس کے ڈھائی ماہ بعد انہیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔

گزشتہ دنوں ایک قومی خبر رساں ادارے سے منسلک ایک صحافی نے اپنا تعارف ’’صاحب خان اوڈھ‘‘ کے نام سے کروایا۔ وہ ایک فعال صحافی ہیں اور اسلام آباد سے کراچی منتقل ہوئے ہیں، ایک دن اچانک صاحب خان کے بیورو چیف نے ان سے کہا کہ دفتر کے دیگر عملے کا بیورو چیف پر بہت دباؤ ہے، اس لیے برائے مہربانی وہ اپنے گلاس اور برتن الگ سے لے کر آئیں۔ صاحب خان کے نام پر مت جائیے وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں۔ یہی سبب تھا کہ اُن کے برتن الگ کرنے کا۔

صاحب خان نے اسلام آباد اس لیے چھوڑا تھا کہ جب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد ان میں عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے اسلام آباد سے کراچی تبادلہ کروانے میں عافیت جانی، لیکن اب صاحب کراچی سے کہاں جائے۔ اس پر اک شعر یاد آرہا ہے۔

دم نکلتا ہے میرا ٹہر کے جانا صاحب پہلے میں جان سے جاؤں، تو چلے جائیے گا

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

فہیم الرحمن Jun 07, 2016 01:15pm
بہت عمدہ بہت محتاط انداز میں آپ نے بات کی ہے کہ شاید آپ کے بھی برتن الگ نہ کر دیے جائے۔ مگر حقیت یہی ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔
حسن اکبر Jun 07, 2016 01:53pm
والد صاحب مرحوم بیان کیا کرتے تھے ۔ کہ تقسیم ہند سے قبل ریلوے اسٹیشن پر ہندو پانی ، مسلمان پانی کی آواز آتی تھی ۔ ........... ہمارے ہاں لاہور میں ہندو تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے ہمارےہاں ہندو والا سلوک کریسچن کمیونٹی کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ............ میرے ایک قریبی دوست کے بچے نے بیان کیا اسکی کلاس (پرائمری سکول)میں ایک احمدی طالب علم بھی ہے ۔لیکن اس کے کلاس فیلو اس کے ساتھ نہیں کھیلتا۔نہ ہی اس کو اپنی بوتل سے پانی دیتے ہیں
Akhtar Hafeez Jun 07, 2016 02:32pm
Buht hi achi tehrer hy.
Waseem Jun 07, 2016 02:44pm
heart breaking Minorities bring diversity and color in nation's arena. How we treat them, shows our own humanity. Unfortunately, we are failing miserably on both sides I worked in Bahrain about 10 years ago, in one for audit firm where lot of Pakistanis including from Sindh were working. And this was so wonderful to see them mixing like brothers. Hope this has not changed there.
راشداحمد Jun 07, 2016 03:39pm
واہ بہت خوب
khobaib hayat Jun 07, 2016 04:11pm
bohot khoob surat tasweer kashi hay hmaray moashray ki adam bardasht ki jis ki traf hm bhagay chalay ja rahay hyn.2 waqeaat yad aa rahay hyn,1.ye 1980 ki bat hay mujhay tharparker ke sarkari daoray krna thay,iss doran ramzan aagaya maay imtanaa e ramzan ordinance (jisay hm zia ul haq se nafrat ke tore pe insedad e ramzan ordinance kehtay thay) tuo myn tando allah yar ke bagri hotel pe khana khata tha,apnay doston aor afsaran ki mukhalfat ke ba wajood,1982 myn state bank aaya tuo staff canteen myn gher muslimon ke liey alag water cooler lga hua tha myn usi se pani peeta tha bohot arsay tak log mujhay gher muslim hi samajhtay rahay meri bla se..
Khan Jun 07, 2016 05:01pm
السلام علیکم یہ تمام معاشرتی رویے ہیں، جو بڑے ہندو چھوٹے ہندوئوں کے ساتھ رکھتے تھے، اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی کسی عالم نے ہمیں غیر مسلموں( کم ذات، اونچی ذات، خاکروب وغیرہ) کے برتنوں میں کھانے سے کبھی منع کیا، صرف اتنا بتایا ہے کہ اگر برتن میں شراب پی ہوں تو اس صورت میں مسلمانوں کے برتن بھی استعمال نہ کرنا۔ والسلام خیرخواہ
M. H. Taqi Jun 07, 2016 08:30pm
@حسن اکبر Opposite to you, my father told me that before partition, in Indian Punjab, all communities i.e.Hindu, Sikh, Esai & Muslims lived in a same village and were neighborhood to each other. But there was no voice comes to hear like Sikh Pani, Hindu Pani, Muslim Pani, Esai Pani and there helped each other as and when required. There were no religious fight and dispute. During Partition period, all blood-shed which were happened were misunderstanding and religious gurus of Sikhs n Muslims spoil the emotions of their religious group to create hate. If one Muslim was murdered in Pakistani Punjab, afwaa reached to Indian Punjab one hundred Muslim murdered. Resultantly, Indian Sikh’s blood spoils and as a revenge they start took life of Muslims. Means bloodshed during partition was created by the religious leaders through wrong and self made means.
khobaib hayat Jun 07, 2016 09:08pm
yar myn ne aik tweel tabserah foran hi kr dia tha,abhi tak nhi aaya....bohot umdah tehreer jo hmen sharmindah honay pr majboor krti hy
مدثر شیخ، لاہور Jun 07, 2016 11:09pm
ماشاء اللہ ، اختر بلوچ صاحب خوب لکھا آپ نے ہمیشہ کی طرح، مجھے سب سے زیادہ یہ بات پسند آئی کہ آپ اپنے ارد گرد کے معمولی سے معمولی واقعے، تحریر یا گفتگو کو بھی نظر انداز نہیں کرتے، بلکہ اسی میں سے انسانی یا معاشرتی المیے کو بیان کرنے کی صورت نکال لیتے ہیں، آپ کے قلم کا یہی خاصہ ہے جو ہمیں آپ کے شذرات سے جوڑے رکھتا ہے۔ اقلیتی برادریوں سے دنیا بھر میں کہیں بھی مناسب سلوک نہیں کیا جاتا، لیکن ہمارے خطے میں اس کی ایک الگ ہی طرز ہے، ہندوستان اور برما میں تو مسلمانوں کو مذہبی رسومات اور عقائد کی پاداش میں پاکستان سے زیادہ شدت پسندی کا سامنا ہے، یورپ میں بھی نسلی بنیادوں پر تفریق ہوتی ہے لیکن اصل معاملہ یہ کہ اختلاف یا تفریق کے آداب پر عمل کون شروع کرے گا اور کب شروع کرے گا۔۔۔ آپ کی تحریر پڑھ کر شاید کچھ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں۔۔۔
ali akbar Jun 07, 2016 11:40pm
Akhtar Baloch sb ! you writings are very heart touching ! There are so many issues embedded in these type of matters/behaviours are basis of these differences but question is that who will bail the cat? At least we should challenge these inhuman practices! you have started by contributing this piece, we are thankful to you !
حفیظ کُنبھر Jun 08, 2016 11:11pm
يہ تو عام باتیں ھیں ـ اس رویہ کی بُو تو ان این جی اوز کے دفاتر میں بھی ھے جو انٹر فیتھ پر سیشن کرواتی پھرتی ھیں ... یوروپ سے آئے کرسچن سے کھاتے پیتے ھم فخر کرتے ھیں ـ ان کے ساتھ کے لنچ ڈنر کا فوٹو بھی فیس بوک پر رکھیں گے ـ لیکن پڑوسی مسیحی جوزف صادق سے کھانا کھاتے ھمارا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا ھے.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024