سنہری ہندو اور ملائی والی چائے
سنہری ہندو سے قطعاً مراد یہ نہیں کہ ہم سنہری رنگ کے ہندوؤں کا ذکر کر رہے ہیں۔ میرا بچپن میرپورخاص کے محلے لال چندآباد بلوچ پاڑا میں گزرا۔ ہمارے محلے کے آغاز میں ایک سڑک سندھڑی روڈ کے نام سے مشہور تھی (جسے اب سر سید روڈ کا نام دے دیا گیا ہے)۔
اس سڑک پر میرپور خاص کا بازارِ حسن بھی آباد تھا، جو غریب آباد اور لال چند آباد کے سنگم پرواقع تھا۔ جب شہر گنجان آباد ہونے لگا تو اس بازار کو اس وقت کے مضافات یعنی کھپرو بس اسٹینڈ کے قریب منتقل کر دیا گیا۔
جب آبادی اور بڑھی تو اسے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے والی ایک نہر کے کنارے آباد کیا گیا، گو کہ اس نہر کا نام ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کے سرکاری رکارڈ میں میرپور خاص مائنر ہے، لیکن اب یہ چکلے والی شاخ کے حوالے سے معروف ہے، اس بازارِ حسن کی داستان بہت دلچسپ ہے جو پھر کبھی بیان کریں گے۔
سندھڑی روڈ پر ملّو ماما کی ایک جھگی نُما ہوٹل تھا۔ ہوٹل کا کُل اثاثا لکڑی کی تین ٹوٹی پھوٹی بینچیں، ایک روالونگ چیئر جو اپنے اوپری حصے سے روالونگ لگتی تھی، اس کے نچلے حصے پر کسی فنکار نے اس خوبصورتی سے اینٹیں لگائی تھیں کہ کرسی سے ادھر ادھر گھمانے کے علاوہ بیٹھنے کا کام اچھے طریقے سے لیا جاسکتا تھا۔
ہوٹل کے اوقات کار نماز فجر سے لے کر نماز عصر تک محدود تھے، اس کی وجہ ہوٹل کی بجلی سے محرومی تھی۔ ہوٹل کا اندرونی حصہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا تھا۔ ہوٹل کی آمدنی کی ایک بڑی وجہ ہوٹل کے ساتھ قائم ایک بیکری تھی جس کے بنائے ہوئے پاپے پورے علاقے میں مشہور تھے اور لوگ، چائے پاپے کا ناشتہ ملّو کے ہوٹل سے کرتے تھے۔
اس ہوٹل کی خاص بات ملائی والی چائے ہوتی تھی۔اس چائے کی قیمت تیس پیسے تھی۔ یہ چائے چینی کے سفید پیالوں میں پیش کی جاتی تھی۔ جب ہمارے دوست اپنی جیب خرچ سے اتنے پیسے بچا لیتے تھے تو ہم سب وہاں چائے پینے جاتے تھے۔ یہ موقع مہینے میں ایک آدھ بار ہی پیش آتا تھا۔
چائے مزیدار بھی ہوتی تھی اور کپ بھی صاف ستھرے ہوتے تھے، ملّو ماما ہمیشہ افیم کے نشے میں مسرور رہتے تھے لیکن، جب بھی ہم لوگ وہاں جاتے تھے تو وہ کہتے ’’لڑکے آگئے، خیال رکھو‘‘۔
اس جھگی نُما ہوٹل کے درمیان چائے بنانے والے کاؤنٹر کے عین اوپرایک ٹوٹی پھوٹی لکڑی کی تختی پر چار سے پانچ سنہری رنگ کے کپ رکھے ہوتے تھے، مجھے وہ کپ بہت اچھے لگتے تھے۔ جب ہم چائے پی رہے ہوتے تھے تو اچانک ملّو ماما کی آواز آتی تھی’’ دو چائے سنہری‘‘ ہوٹل اسٹاف ایک ہی فرد پر مشتمل ہوتا تھا جو چائے بناتا بھی تھا اور لوگوں کو پیش بھی کرتا تھا۔ سنہری کپ سنتے ہی اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں ہوجاتے اور وہ ہوٹل کے پچھواڑے میں گٹر کے کنارے بیٹھے ہوئے لوگوں کو سنہری کپوں میں چائے پیش کرتا تھا۔
مجھے چینی کی صاف و شفاف پیالیاں ان سنہری کپوں کے مقابلے میں بہت بے توقیر معلوم ہوتی تھی۔ میری خواہش تھی کے کبھی ملّو ماما سے کہوں کہ مجھے بھی سنہری کپ میں چائے دیں، لیکن ہمت نہ ہوئی۔
جب میں کچھ بڑا ہوا اور پرائمری پاس کر کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا تو یہ احساس ہوا کہ اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ تو ایک دن میں نے ملّو ماما کو حکمیہ انداز میں کہا کہ ملائی والی چائے سنہری کپ میں دو، ملّو نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ’’چھورا! چریو آھیں چھا‘‘ (لڑکے پاگل ہوگئے ہو کیا) میں نے کہا کیوں؟ ملّو بولا یہ کپ ہندو کا ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ پرچون والے سیوا چند کو تو تم سفید کپ میں چائے دیتے ہو، وہ بھی تو ہندوہے۔’’چھوکرا کچھ سمجھ کرو‘‘ وہ بڑا ہندو ہے۔ میں نے کہا چھوٹا بڑا ہندو کیوں ہوتا ہے؟ ملّو بولا یہ ان کا آپسی معاملہ ہے۔ میرے کو کیا پتا؟ سیوا بڑا ہندو ہے اس لیے مسلمان والے سفید کپ میں چائے پیتا ہے۔ مسلمان کو بھی اس پر اعتراض نہیں۔ وری میرے کو کیوں ہو؟
یہ تو تھی ماضی کی بات۔ مئی 2016 ء میں میرا خاندان گلستانِ جوہر سے کراچی کے اولڈ ایریا یعنی ماما پارسی اسکول کے عقب میں واقع مارشل اسٹریٹ پر قائم کوہ نور پلازہ میں منتقل ہوا، کوہ نور پلازا کے ایک نوٹس بورڈ پر ایک دن اچانک میری نظر پڑی، اس بورڈ کے 13 ویں نقطے پر درج تھا کہ’’گراؤنڈ میں بھجن یا پوجا وغیرہ کی ہرگز اجازت نہیں ہے‘‘ گو کہ اس پلازہ میں ہندو اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔
ہمارے ایک دیرینہ رفیق پریس کلب حیدرآباد کے سابق صدر مہیش کمار جو غالباً نہیں بلکہ یقیناً پاکستان بھر میں کسی اخبار کے واحد ہندو ایڈیٹر ہیں، صحافت سے قبل محکمہ موسمیات کراچی میں ان کی تقرری ہوئی۔ ابتداء میں تو ان کے برتن الگ کردیے گئے، جس کا انہوں نے بلکل برا نہیں مانا اور نہ ہی اس پرکوئی احتجاج کیا۔
پھر آخر ایک دن ان کے باس نے انہیں دفتر میں طلب کیا اور ادِھر ادھر کی باتیں کرنے کہ بعد کہا کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا ہے، میرا خیال ہے کہ برگر منگوائے جائیں۔ مہیش کمار کو اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی، انہوں نے کہا، ضرور، باس نے کہا یہاں بیف برگر ملتے ہیں میرے لیے تو ایک کافی ہوگا، آپ فرمائیے، مہیش کمار سمجھ گئے کہ باس کیا کہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے باس سے کہا کہ میرے لیے دو بیف برگر منگوائیے گا۔ اس کے ڈھائی ماہ بعد انہیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔
گزشتہ دنوں ایک قومی خبر رساں ادارے سے منسلک ایک صحافی نے اپنا تعارف ’’صاحب خان اوڈھ‘‘ کے نام سے کروایا۔ وہ ایک فعال صحافی ہیں اور اسلام آباد سے کراچی منتقل ہوئے ہیں، ایک دن اچانک صاحب خان کے بیورو چیف نے ان سے کہا کہ دفتر کے دیگر عملے کا بیورو چیف پر بہت دباؤ ہے، اس لیے برائے مہربانی وہ اپنے گلاس اور برتن الگ سے لے کر آئیں۔ صاحب خان کے نام پر مت جائیے وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں۔ یہی سبب تھا کہ اُن کے برتن الگ کرنے کا۔
صاحب خان نے اسلام آباد اس لیے چھوڑا تھا کہ جب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد ان میں عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے اسلام آباد سے کراچی تبادلہ کروانے میں عافیت جانی، لیکن اب صاحب کراچی سے کہاں جائے۔ اس پر اک شعر یاد آرہا ہے۔
دم نکلتا ہے میرا ٹہر کے جانا صاحب پہلے میں جان سے جاؤں، تو چلے جائیے گا
تبصرے (12) بند ہیں