'پاکستان، ایران میں منصوبے ایک دوسرے کے مددگار'

شائع June 2, 2016
چینی وزیراعظم لی کی چیانگ —۔فوٹو/ رائٹرز
چینی وزیراعظم لی کی چیانگ —۔فوٹو/ رائٹرز

بیجنگ: ہندوستان کی مالی معاونت سے ایران اور افغانستان کے چاہ بہار بندرگاہ منصوبے کو چین گوادر بندرگاہ یا پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں سمجھتا بلکہ چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کو یقین ہے کہ یہ دونوں منصوبے خطے کی سست معیشتوں کو مضبوط کرنے میں ایک دوسرے کو مدد دیں گے۔

ایشین نیوز پیپرز اور ایڈیٹرز کے ایک گروپ سے بات چیت کے دوران وزیراعظم لی کا کہنا تھا کہ ایشیاء سمیت پوری دنیا میں جاری معاشی بحران کا خاتمہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خطے کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور حوصلہ افزائی کریں۔

مزید پڑھیں: ہندوستان، ایران اور افغانستان میں چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ

اس تاثر کے حوالے سے کہ چاہ بہار منصوبہ چین کے لیے رکاوٹ کا باعث ہوسکتا ہے، وزیراعظم لی کا کہنا تھا کہ بیجنگ بھی اس سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کو بھی یہی کرنا چاہیے کیونکہ خطے میں معاشی ترقی صرف 'اپنے مشترکہ اہداف اور مقاصد' کی باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ چاہ بہار منصوبہ پاکستان میں گذشتہ کافی عرصے سے موضوع بحث ہے، جہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سی پیک منصوبے کے ردعمل میں شروع کیا گیا جبکہ کچھ نے اسے پاکستانی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چاہ بہار، گوادر پورٹ کی حریف نہیں: ایران

اجلاس کے دوران چین کے خطے میں ایک نئی 'سپر پاور' کی حیثیت سے ابھرنے اور جنوبی چین کے سمندری تنازع کے حوالے سے معاملات زیرِ غور آئے۔

وزیراعظم لی نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'چین کے لیے سپر پاور بننے کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی چین ایسے عزائم رکھتا ہے۔'

اس تصور کے حوالے سے کہ چین جلد ہی خطے میں معاشی پاور ہاؤس اور سپر پاور کی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے، وزیراعظم لی کا کہنا تھا کہ جدیدیت کے مقاصد کی طرف جانے کے لیے ابھی ان کے ملک کے پاس بہت وقت ہے۔

مزید پڑھیں: 'چاہ بہار بندرگاہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ'

انھوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ اگر چین آنے والے عشروں میں جدیدیت کے مقاصد حاصل کر بھی لے تب بھی بیجنگ بالادستی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی ملک کو پریشان کرے گا، چاہے آبادی یا محل وقوع کے لحاظ سے وہ ملک کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ خطے کے کچھ ممالک کے ساتھ بعض معاملات پر چین کے اختلافات موجود ہیں، تاہم کوئی بھی اتنا سنجیدہ نوعیت کا نہیں ہے کہ اس پر تشویش ہو، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل کو تحمل اور سفارتی ذرائع سے حل کرنا اہم ہے۔

یہ خبر 2 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024