مشتبہ سیکیورٹی پالیسی
ایک اور انتہائی مطلوب شخصیت، اب کی بار افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کے پاکستان میں مارے جانے نے ایک بار پھر دنیا کو پاکستان پر انگلیاں اٹھانے کا موقع دیا ہے۔
ایک دو نہیں بلکہ کئی بین الاقوامی دہشت گرد دنیا کے دیگر ممالک میں دہشتگردی کی کارروائیاں کرنے کے بعد یا تو پاکستان سے گرفتار ہوئے، یا یہاں ہلاک ہوئے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔
پاکستان میں گرفتار یا ہلاک ہونے والے عالمی دہشتگرد
ملا اختر منصور (سربراہ افغان طالبان)
اسامہ بن لادن (سربراہ القاعدہ)
عمر پاتک (بالی بم دھماکوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ)
ابو فرج اللبی (القاعدہ نمبر 3)
عمر عزیزی (میڈرڈ ٹرین بم حملہ)
خالد شیخ محمد (11 ستمبر حملوں کے ملزم)
رمزی الشبیہہ (11 ستمبر حملوں کے ملزم)
ایمل کانسی (سی آئی اے ہیڈ کوارٹر حملہ)
رمزی بن یوسف (نیویارک کار بم حملہ)
فہرست بہت طویل ہے، اور بلاشبہ یہ صرف اتفاقات نہیں ہو سکتے۔ 1993 سے 2016 تک کے سال اس شرمناک حقیقت کا ثبوت ہیں۔ ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے عقب میں امریکی فوج کے حملے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئے مگر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کبھی بھی عام نہیں کی گئی۔
اب ملا منصور کی پاکستان میں ہلاکت نے پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کے متعلق مزید تلخ سوالات کو جنم دیا ہے۔
ان سوالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو ڈرون حملے کے بعد اطلاع دی، تو وزیرِ اعظم نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ کیا پاکستان کی اہمیت اتنی بھی نہیں کہ اسے پیشگی اطلاع ہی دے دی جائے؟
وزیرِ اعظم نے فوری طور پر فضائی حدود کی خلاف ورزی پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟
پاکستان کی اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کے متعلق پالیسی آخر کیا ہے؟
وزیرِ اعظم کے مشیرِ برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اور معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی دونوں نے پاکستان کا سرکاری نکتہء نظر دینے میں 12 گھنٹے سے بھی زیادہ کیوں لگائے؟
ہمارے حساس ادارے ملا منصور کی پاکستان میں موجودگی اور نقل و حرکت سے کیوں بے خبر تھے؟ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ بلوچستان میں پہلے ڈرون حملے پر آئی ایس پی آر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ خاموش ہے۔
فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دفترِ خارجہ کے 'احتجاج' اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست کے پاس کوئی جوابات نہیں ہیں، یا پھر اسے خبر کو توڑنے مروڑنے کا موقع نہیں مل رہا۔
اس طرح کا رویہ مزید سوالات کو جنم دیتا ہے، اور پاکستان کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان نے پاکستان کی فوجی امداد میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان خطے میں ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا۔
امریکی اور پاکستانی پالیسیوں میں بڑھتی خلیج واضح ہے، اور لگتا ہے کہ امریکا اب افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کو مزید وقت دینے کو تیار نہیں ہے۔
امریکا طالبان کو یوں ہی نشانہ بناتا رہے گا اور پاکستان اندھیرے میں رہے گا۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ریاست کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ آخر چاہتی کیا ہے؟
ایک ایٹمی قوت کو ایک ایٹمی قوت کی طرح ہی پیش آنا چاہیے۔ پہلی اسلامی ایٹمی قوت کی سفارتکاری میں وہ بات نظر نہیں آتی جو ہونی چاہیے۔
پاکستان کو دنیا کے سامنے اپنے قومی مفادات واضح کرنے چاہیئں۔ اٹھنے والے تمام سوالات کا سفارتی محاذ پر پراعتماد انداز میں جواب دینا چاہیے۔ اپنے عوام اور اپنے قومی مفاد کے لیے پاکستان اگر مشکل فیصلے لے، تو یہ اس کا حق ہے، مگر اس کے لیے قومی مفادات کو واضح کرنا ضروری ہے۔
پاکستان اپنی جانب اٹھتی دنیا بھر کی انگلیوں کا جواب نہ دے کر اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔ جب امریکا کہتا ہے کہ "ہم پاکستان کی سرحدی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں مگر ڈرون حملے نہیں رک سکتے"، تو یہ پاکستان کے لیے ایک شٹ اپ کال ہے۔ ہم آخر کیسے فرنٹ لائن اتحادی ہیں؟
ضربِ عضب پاکستان کے اندر تو شاید امن لے آئے، مگر یہ امریکا کو مطمئن نہیں کر سکتا۔
تین سال قبل پاکستان نے یہ تسلیم کیا یہ اندرونی خطرہ ہی پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، مگر اب ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان دانستہ یا نادانستہ طور پر امریکا اور افغانستان کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
اگر ہم دوسرے ممالک کے لیے خطرہ نہیں بننا چاہتے، تو ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی بھی دہشتگرد کو پاکستان میں چھپنے کی جگہ نہ ملے، اور اگر کوئی چھپنا چاہے بھی تو اسے امریکی اداروں کے بجائے پاکستان خود گرفتار کرے اور انصاف کے کٹہرے تک لائے۔
ورنہ دہشتگرد یہاں سے برآمد ہوتے رہیں گے، اور پاکستان پر یوں ہی الزامات لگتے رہیں گے۔
تبصرے (4) بند ہیں