پاکستان کی 'جنرل' انشورنس
گزشتہ دو سالوں سے مجھے ایک ہی موبائل نمبر سے کالیں موصول ہو رہی تھیں۔ کال کرنے والا ہمیشہ ہی بڑی تمیز اور آدب سے گفتگو کرتا اور اپنا تعارف ایک نجی بیمہ کمپنی کے سیلز ایگزیکٹو کے طور پر کرواتا۔
میں اکثر اس کا نمبر دیکھ کر کال رد کردیتا۔ چند دنوں بعد پھر سے موصوف اتنی ہی دل جمعی اور آدب سے ملنے کے لیے وقت مانگتے اور میں کبھی دفتری اور کبھی گھریلو مصروفیات کا بہانہ بنا کر ٹال دیتا۔
مگر پھر بھی اس مستقل مزاج شخص نے کال کرنی نہیں چھوڑی، تو آخر ایک روز میں نے اسے اپنے دفتر مدعو کر ہی لیا۔
دفتر کے وزیٹنگ روم میں سخت گرمی میں ٹائی لگائے پسینے میں شرابور نوجوان کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہی وہ ڈھیٹ شخص ہے جو مجھے دو سالوں سے کالوں پر کالیں کر رہا ہے۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ انتہائی احترام سے کھڑا ہوا اور میری خیریت دریافت کی۔
میں نے بھی حال چال پوچھتے ہوئے جھوٹی چائے کی پیشکش کردی جسے اس نے مروتاً ٹھکرا دیا۔
گفتگو شروع ہونے کے بعد موصوف نے اپنے بیگ میں سے ڈائری نکالی اور مجھ سے میری ذاتی معلومات دریافت کرنا شروع کر دیں۔ میں حیران تھا کہ اسے میری تںخواہ کے علاوہ میرے آخری انکریمنٹ کا بھی پتا تھا جو کہ کئی سال پہلے لگا تھا، اور اسے یہ بھی پتا تھا کہ میں ہر ماہ تنخواہ میں سے کتنے پیسے بچا لیتا ہوں، جن کو ہڑپنے کا منصوبہ لے کر وہ مجھے بیمے کے چکر میں پھانسنے آیا تھا۔
خیر دورانِ گفتگو موصوف نے انتہائی ہوشیاری اور چلاکی سے انتہائی فکری دلائل دیتے ہوئے مجھے یہ باور کروایا کہ ہر انسان نے ایک دن مرنا ہے اور میری موت کے بعد میرے اہل خانہ کے مستقبل سے متعلق بیمہ پلان بتانا شروع کیے، جن کو سن کر میں کچھ دیر کے لیے ششدر ہو گیا، اور پھر میں نے اپنے حواس پر قابو پا کر تمام منصوبوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ "جس نے بچے دیے ہیں، میرے بعد بھی وہی ان کا وارث ہوگا۔"
اپنے پہلے ایجنڈے میں ناکامی پر موصوف نے میرے بچوں کی تعلیم سے متعلق پلان بتانا شروع کر دیے، جن سے میں نا چاہتے ہوئے بھی متاثر ہونے لگا۔
میرے دفتر میں ظاہری ٹھاٹھ باٹ دیکھتے ہوئے موصوف کہنے لگے کہ یقیناً آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچے بھی آپ کی طرح بڑے افسر بنے۔ آپ کی مالی حالت اور آپ کے عظیم ارادوں کو دیکھتے ہوئے میرے پاس آپ کے بچوں کی تعلیم کے لیے ایک خصوصی پلان ہے، جس میں آپ کو بس سال میں اتنے روپے دینے ہیں اور جب آپ کی بڑی بیٹی 20 سال کی ہوگی تو اس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اتنے پیسے آپ کو ہم دیں گے۔
موصوف کی طرف سے سالوں بعد ملنے والی رقم سن کر میں ایک بار سکتے میں آ گیا اور پلان کی تفصیلات جاننا شروع کر دیں جو کہ انتہائی متاثر کن تھیں۔
میری دلچسپی دیکھ کر مجھے یہ خصوصی آفر دی گئی کہ اگر میں اسی ماہ بیمہ کرواتا ہوں تو مجھے اس سال کا ڈبل بونس ملے گا (بعد ازاں پتا چلا کہ بیمہ کمپنیاں ہر ماہ ہی ڈبل بونس دیتی ہیں)۔
اس طرح میں نے اپنی چار سالہ بیٹی کے لیے ایجوکیشن پلان بُک کروا دیا اور پہلی قسط کا چیک بھی دے دیا۔
چیک لینے کے بعد بیمہ کمپنی سے آئے سیلز ایگزیکٹو نے کہا کہ اللہ کرے کہ آپ کی لمبی زندگی ہو، پر اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو جن بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے آپ اتنے فکر مند ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ اس لیے آپ اپنا بیمہ کروانے سے متعلق سوچیے گا ضرور۔
دفتری مصروفیت کی وجہ سے میں نے ان موصوف کو اس وقت تو چلتا کیا مگر بعد ازاں اس شش و پنج میں پڑ گیا کہ بات تو واقعی ٹھیک ہے، مجھے اگر کچھ ہوگیا تو میرے بچوں کی پرورش کون کرے گا؟
یہ وہ خیال تھا جس کو سوچ کر میں کچھ دنوں تک پریشان رہا اور میں نے اپنی بیوی سے بھی اس پریشانی کا ذکر کیا۔ جس نے مجھے صرف یہ کہہ کر چُپ کروا دیا کہ اللہ پر یقین رکھیں۔ آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی ضرورت نہیں اپنا بیمہ کروانے کی۔
بیوی کی اس ہدایت اور اللہ پر پختہ یقین ہونے کی وجہ سے میں مطمئن تو ہوگیا۔ مگر میں سوچنے لگا کہ ہم کیوں اس عارضی زندگی میں مستقل چیزوں کی تلاش میں ہوتے ہیں؟ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں اگلا سال تو دور اگلے ہفتے کے حالات کا کچھ پتا نہیں اور پھر بھی ہمارا ملک اللہ کے سہارے چلے ہی جارہا ہے۔
کتنے ہی بم دھماکے کیوں نا ہورہے ہوں، ہم پاکستان میں رہتے ہوئے روز گھروں سے نکلتے ہیں۔ لہزا مجھے بھی اپنی لمبی زندگی کی دعا کرتے ہوئے اللہ پر یقین رکھنا چاہیے اور اپنی صحت اور تندرستی کی فکر کرنی چاہیے۔
مجھے لگتا ہے کہ میں وہ واحد شخص نہیں جسے یہ پریشانی لاحق ہوگی۔ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے لئے فکر مند ہیں، وہ یقیناً ایسی بیمہ پالیسیاں لیتے ہوں گے اور چونکہ بیمہ کمپنیاں لوگوں کی فکر مندانہ سوچ اور ملکی حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے وہ مجھ جیسے بکروں کی تلاش میں ہوتے ہیں جن کی بیمہ پالیسیاں کر کے وہ اپنا کاروبار چلا سکیں۔
اس کے علاوہ پچھلی دو دہائیوں سے جن حالات میں ہم پاکستانی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ واقعی تشویشناک ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ضرب عضب شروع ہونے کے بعد سے خود کش دھماکے کچھ تھمے ہیں۔ مگر اب بھی کبھی کبھار دہشتگرد ایسا حملہ کرتے ہیں کہ سب سہم جاتے ہیں اور دبک کر گھروں میں قید ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں اگر میں سوچوں کہ پاکستان جو کہ دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے والا پہلا اسلامی ملک ہے اور جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اگر اس کے مستقبل کا کچھ پتا نہیں تو میری کیا اوقات؟
2001 میں امریکا پر ہونے والے حملوں کے بعد تو یہ حالات ہیں کہ پوچھیے ہی مت۔ کبھی لگتا ہے کہ امریکی امداد نا ملی تو پاکستان چل نہیں سکتا، اور کبھی لگتا ہے کہ ہندوستان، علاقائی حالات اور خود پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے پاکستان پر حملہ کردے گا۔
پھر خیال آتا ہے کہ پاکستان کا بیمہ شاید پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی برا وقت آتا ہے تو پوری قوم پاک فوج کی طرف دیکھتی ہے، صرف بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے نہیں۔ بلکہ سیاسی حالات نازک ہونے پر بھی سیاستدانوں سمیت عوام کا دھیان فوج کی طرف ہوتا ہے جس نے لگتا ہے کہ پاکستان کا بیمہ کر رکھا ہے۔
اسی لیے پاک فوج کو ہر سال قومی خزانے سے بیمے کی قسط دفاعی بجٹ کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، جس کے عوض پاک فوج نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، بلکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ اب جمہوریت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی بیمہ پالیسی میں شامل ہوگئی ہے جس کے تحت جب بھی کوئی ایسا سیاسی مسئلہ سامنے آتا ہے تو فوج فریقین کے درمیان 'ثالث' کا کردار ادا کرتی ہے۔
چنانچہ مجھ سمیت اکثریتی پاکستانیوں کو تسلی ہے کہ چونکہ پاک فوج، جمہوریت کی مضبوطی کے علاوہ ملک میں امن قائم کرنے کا بیڑہ بھی اٹھا چکی ہے، تو یہ کام ضرور پورا ہو کر رہے گا، لہٰذا لمبی چوڑی پالیسیاں خریدنے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔
اور ساتھ ساتھ اس حقیقت پر ایمان ہونا چاہیے کہ ہمارا منتخب کردہ وزیر اعظم بھلے ہی صرف نام کا شریف ہو مگر ہماری فوج کا سپہ سالار کام کا شریف ہے۔
کیا ایسے بیمے کی موجودگی میں کسی اور بیمے کی بھی ضرورت ہے؟
تبصرے (4) بند ہیں