زخمی مخنث علیشہ ہسپتال میں چل بسی
پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج مخنث علیشہ خموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔
علیشہ کو گزشتہ ہفتے ایک مشتعل شخص نے 8 گولیاں مارکر شدید زخمی کردیا تھا۔
25 سالہ علیشہ پانچویں مخنث ہیں، جنھیں رواں برس خیبر پختونخوا میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس سے قبل عدنان، سمیر، کومل اور عائشہ نامی مخنث بھی رواں سال تشدد کا شکار ہوئے، ان تمام خواجہ سراؤں کا تعلق ٹرانس ایکشن الائنس خیبر پختوانخوا (ٹی اے اے) سے ہے۔
ٹی اے اے نے علیشہ کی موت کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے مخنث پر ہونے والے حملے اور تشدد کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا اور صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے ان کی جان و مال کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔
ٹی اے اے نے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر لکھا، ’علیشہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی لاپروائی کی وجہ سے انتقال کرگئی‘۔ ان کا کہنا ہے کہ علیشہ کا درست طریقے سے علاج نہیں کیا گیا۔
مخنثوں کی تنظیم ٹی اے اے نے فقیرآباد پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
اس سے قبل ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں ٹی اے اے کے ایک رکن قمر نسیم نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہونے والے تلخ تجربے کے حوالے سے بتایا تھا کہ’جب علیشہ زخمی تھی تو ڈاکٹرز اس سے یہ پوچھتے رہے کہ وہ ڈانس کرنے کے کتنے پیسے لے گی۔‘
شی میل ایسوسی ایشن آف خیبر پختونخوا کی صدر فرزانہ جان نے ڈان کو بتایا تھا کہ زخمی علیشہ کو وارڈ میں داخل کرنے کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہسپتال کے ڈاکٹرز اور مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے اہلخانہ نے ہمارے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھا۔ ان لوگوں نے علیشہ کی مدد کرنے کی بجائے ہمیں تنگ کرنا اور بدتمیزی شروع کردی۔ وارڈ میں مرد و خواتین علیشہ کے ساتھ رہنے پر ہچکچاہٹ محسوس کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مخنث ایک الگ صنف نہیں، ہمیں خوشی خوشی شادیوں اور دیگر فنکشنز میں بلاکر عزت دی جاتی ہے، لیکن مصبیت کے وقت جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمیں انسان نہیں سمجھا جاتا، چاہے خوشی ہو یا موت، ہر جگہ ہماری ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’اس دنیا میں نام نہاد مسلمان بھی انسانیت کی تذلیل کرنے سے باز نہیں آتے۔‘
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (3) بند ہیں