ریٹنگز کا آزمودہ فارمولا
کسی دانا صحافی کا قول ہے کہ آپ کو اچھی خبر خود جا کر تلاش کرنی پڑتی ہے، مگر بری خبر آپ کو خود تلاش کر لیتی ہے۔
اگر ٹی وی میڈیا کی بات کی جائے، تو یہ بات درست ہے، کیونکہ جب بھی بم دھماکہ ہوتا ہے، تو اس کی کوریج ہر چینل پر ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔
شروعات بریکنگ نیوز سے ہوتی ہے اور پھر ابتدائی مناظر دکھانے کی دوڑ (اور ٹی وی پر دائیں سے بائیں چلتی 'ایکسکلوزیو' کی پٹی تو لازم ہے)۔
جتنی دیر میں رپورٹر اور سیٹلائٹ وین جائے وقوعہ پر پہنچیں، اتنی دیر میں آپ کو تجزیہ کاروں سے وہی باتیں کرنی پڑتی ہیں جو کہ پہلے بھی کی جا چکی ہوتی ہیں: "کون ذمہ دار ہے؟ کیا یہ واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی ہے؟ کیا قومی ایکشن پلان ناکام ہوگیا ہے؟ کیا ضربِ عضب بے مقصد تھا؟ کسے استعفیٰ دینا چاہیے؟" وغیرہ۔
رپورٹر کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں جتنی دیر لگتی ہے، اتنی دیر میں آپ فون پر دستیاب ہر تجزیہ کار اور ہر سیاستدان سے یہی سوال بار بار پوچھ سکتے ہیں۔
اس دوران آپ کو یہ مشکل اداراتی فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں کہ سانحے کی تصاویر کس پہلو سے دکھائی جائیں، اور ان تصاویر کے پیچھے کون سا غمگین میوزک چلایا جائے۔
ایک بار جب رپورٹر وہاں پہنچ جاتا ہے، تو وہ بچ جانے والوں سے دنیا کا اہم ترین سوال پوچھتا ہے: "آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟"
یہ چیز ہم ہر ٹی وی چینل پر دیکھ چکے ہیں، لیکن جو چیز ہم نہیں دیکھتے، وہ سانحے کا نشانہ بننے والی جگہ پر انسانیت کا مظاہرہ ہے: وہ رکشہ ڈرائیور جو زخمیوں کو بچانے کے لیے فوراً پہنچتا ہے؛ وہ ڈاکٹر جو محدود وسائل کے باوجود گھنٹوں تک جانیں بچانیں کی کوشش کرتا ہے؛ وہ پولیس اہلکار جو اپنی جان دے دیتا ہے تاکہ دوسرے زندہ رہ پائیں۔
آپ بریکنگ نیوز تو دیکھیں گے، مگر آپ کو انسانیت کی یہ داستانیں عام طور پر سننے کو نہیں ملتیں۔ کیوں؟
وجہ وہی ہے: اچھی خبر تلاش کرنی پڑتی ہے، جو کہ ایک محنت طلب کام ہے۔
اور کوئی محنت کیوں کرے جب وہی فارمولا استعمال کیا جا سکتا ہے جو ہر کوئی کر رہا ہے؟
حقائق کی تصدیق کا سر درد کیوں پالا جائے جب دوسرے ٹی وی چینل کے ٹِکر نقل کیے جا سکتے ہیں؟
خبر کی تصدیق کیوں کی جائے جب اسے 'ذرائع' کا حوالہ دے کر چلایا جا سکتا ہے؟
یہی فارمولا ٹاک شوز میں بھی کام آتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک سیاسی بحران جنم لیتا ہے، جو کہ ہر دوسرے ہفتے ہی ہوتا ہے۔ اب آپ چاہیں تو اس کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اور یومِ قیامت جیسی سنسنی پھیلائے بغیر اور ناظرین کو بور کیے بغیر اس کی وجوہات اور اس کے اثرات کو سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں۔
دیگر دلچسپ مضامین
- سانحہ پشاور کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ
- پاکستانی چینلز کی بناکا گِیت مالا ہیڈ لائنز
- میڈیا چینلز کی بھیڑ چال میں آج کی اہم ضرورت
مگر یہ بھی ایک محنت طلب کام ہے۔
اس کے بجائے کیوں نہ مخالف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو فون ملایا جائے، مسئلے کا پس منظر دے کر انہیں آن ایئر لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، (ویسے جب کیمرا بند ہوتا ہے، تو وہ عموماً پرسکون ہوتے ہیں)، اور پھر یہ کہہ کر پروگرام کا اختتام کیا جائے کہ "ناظرین، اگر ہمارے لیڈران ایسے ہیں، تو ہمارے ملک کا کیا ہوگا، یہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا۔"
اگر کوئی سیاسی بحران موجود نہیں، تو آپ 'کیا ہونے والا ہے؟ سول ملٹری تعلقات کہاں جا رہے ہیں،' جیسے سدابہار موضوعات پر بحث مباحثہ کروا سکتے ہیں۔ اور اگر کچھ بھی نہ ملے، تو شیخ رشید کو ہمیشہ ہی دعوت دی جا سکتی ہے۔
زبردست بات یہ ہے کہ اگر یہی چیز بار بار دہرائی جائے، تو یہ روایت بن جاتی ہے۔ یہ متوقع معیار بن جاتا ہے، اور اس سے ذرا بھی ہٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس میں میڈیا کی بھیڑ چال بھی شامل کریں، اور آپ سمجھ جائیں گے کہ کیوں ایک ہی کامیاب فارمیٹ ہر ٹی وی چینل پر نقل کیا جاتا ہے۔
مگر کیا ہوگا اگر آپ کچھ نیا آزمائیں؟ کچھ مختلف؟ کوئی ایسی چیز جس میں ایک نکتہ پیش کرنے کے لیے سنسنی اور چیخ و پکار کا سہارا نہ لیا جائے؟
کیا لوگوں کو بور کیے بغیر ایسا کرنا ممکن ہے؟
میرا خیال ہے کہ ہاں، لیکن 'یہ تو آنے والے کل کی ریٹنگز ہی بتائیں گی۔'
تبصرے (5) بند ہیں