• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

ریٹنگز کا آزمودہ فارمولا

شائع May 24, 2016 اپ ڈیٹ May 25, 2016
کیا ہوگا اگر ٹی وی چینلز کوئی ایسا طریقہ اپنائیں جس میں نکتہ پیش کرنے کے لیے سنسنی اور چیخ و پکار کا سہارا نہ لیا جائے؟ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔
کیا ہوگا اگر ٹی وی چینلز کوئی ایسا طریقہ اپنائیں جس میں نکتہ پیش کرنے کے لیے سنسنی اور چیخ و پکار کا سہارا نہ لیا جائے؟ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔

کسی دانا صحافی کا قول ہے کہ آپ کو اچھی خبر خود جا کر تلاش کرنی پڑتی ہے، مگر بری خبر آپ کو خود تلاش کر لیتی ہے۔

اگر ٹی وی میڈیا کی بات کی جائے، تو یہ بات درست ہے، کیونکہ جب بھی بم دھماکہ ہوتا ہے، تو اس کی کوریج ہر چینل پر ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔

شروعات بریکنگ نیوز سے ہوتی ہے اور پھر ابتدائی مناظر دکھانے کی دوڑ (اور ٹی وی پر دائیں سے بائیں چلتی 'ایکسکلوزیو' کی پٹی تو لازم ہے)۔

جتنی دیر میں رپورٹر اور سیٹلائٹ وین جائے وقوعہ پر پہنچیں، اتنی دیر میں آپ کو تجزیہ کاروں سے وہی باتیں کرنی پڑتی ہیں جو کہ پہلے بھی کی جا چکی ہوتی ہیں: "کون ذمہ دار ہے؟ کیا یہ واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی ہے؟ کیا قومی ایکشن پلان ناکام ہوگیا ہے؟ کیا ضربِ عضب بے مقصد تھا؟ کسے استعفیٰ دینا چاہیے؟" وغیرہ۔

رپورٹر کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں جتنی دیر لگتی ہے، اتنی دیر میں آپ فون پر دستیاب ہر تجزیہ کار اور ہر سیاستدان سے یہی سوال بار بار پوچھ سکتے ہیں۔

اس دوران آپ کو یہ مشکل اداراتی فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں کہ سانحے کی تصاویر کس پہلو سے دکھائی جائیں، اور ان تصاویر کے پیچھے کون سا غمگین میوزک چلایا جائے۔

ایک بار جب رپورٹر وہاں پہنچ جاتا ہے، تو وہ بچ جانے والوں سے دنیا کا اہم ترین سوال پوچھتا ہے: "آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟"

یہ چیز ہم ہر ٹی وی چینل پر دیکھ چکے ہیں، لیکن جو چیز ہم نہیں دیکھتے، وہ سانحے کا نشانہ بننے والی جگہ پر انسانیت کا مظاہرہ ہے: وہ رکشہ ڈرائیور جو زخمیوں کو بچانے کے لیے فوراً پہنچتا ہے؛ وہ ڈاکٹر جو محدود وسائل کے باوجود گھنٹوں تک جانیں بچانیں کی کوشش کرتا ہے؛ وہ پولیس اہلکار جو اپنی جان دے دیتا ہے تاکہ دوسرے زندہ رہ پائیں۔

آپ بریکنگ نیوز تو دیکھیں گے، مگر آپ کو انسانیت کی یہ داستانیں عام طور پر سننے کو نہیں ملتیں۔ کیوں؟

وجہ وہی ہے: اچھی خبر تلاش کرنی پڑتی ہے، جو کہ ایک محنت طلب کام ہے۔

اور کوئی محنت کیوں کرے جب وہی فارمولا استعمال کیا جا سکتا ہے جو ہر کوئی کر رہا ہے؟

حقائق کی تصدیق کا سر درد کیوں پالا جائے جب دوسرے ٹی وی چینل کے ٹِکر نقل کیے جا سکتے ہیں؟

خبر کی تصدیق کیوں کی جائے جب اسے 'ذرائع' کا حوالہ دے کر چلایا جا سکتا ہے؟

یہی فارمولا ٹاک شوز میں بھی کام آتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک سیاسی بحران جنم لیتا ہے، جو کہ ہر دوسرے ہفتے ہی ہوتا ہے۔ اب آپ چاہیں تو اس کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اور یومِ قیامت جیسی سنسنی پھیلائے بغیر اور ناظرین کو بور کیے بغیر اس کی وجوہات اور اس کے اثرات کو سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں۔

دیگر دلچسپ مضامین


- سانحہ پشاور کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ

- پاکستانی چینلز کی بناکا گِیت مالا ہیڈ لائنز

- میڈیا چینلز کی بھیڑ چال میں آج کی اہم ضرورت

مگر یہ بھی ایک محنت طلب کام ہے۔

اس کے بجائے کیوں نہ مخالف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو فون ملایا جائے، مسئلے کا پس منظر دے کر انہیں آن ایئر لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، (ویسے جب کیمرا بند ہوتا ہے، تو وہ عموماً پرسکون ہوتے ہیں)، اور پھر یہ کہہ کر پروگرام کا اختتام کیا جائے کہ "ناظرین، اگر ہمارے لیڈران ایسے ہیں، تو ہمارے ملک کا کیا ہوگا، یہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا۔"

اگر کوئی سیاسی بحران موجود نہیں، تو آپ 'کیا ہونے والا ہے؟ سول ملٹری تعلقات کہاں جا رہے ہیں،' جیسے سدابہار موضوعات پر بحث مباحثہ کروا سکتے ہیں۔ اور اگر کچھ بھی نہ ملے، تو شیخ رشید کو ہمیشہ ہی دعوت دی جا سکتی ہے۔

زبردست بات یہ ہے کہ اگر یہی چیز بار بار دہرائی جائے، تو یہ روایت بن جاتی ہے۔ یہ متوقع معیار بن جاتا ہے، اور اس سے ذرا بھی ہٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس میں میڈیا کی بھیڑ چال بھی شامل کریں، اور آپ سمجھ جائیں گے کہ کیوں ایک ہی کامیاب فارمیٹ ہر ٹی وی چینل پر نقل کیا جاتا ہے۔

مگر کیا ہوگا اگر آپ کچھ نیا آزمائیں؟ کچھ مختلف؟ کوئی ایسی چیز جس میں ایک نکتہ پیش کرنے کے لیے سنسنی اور چیخ و پکار کا سہارا نہ لیا جائے؟

کیا لوگوں کو بور کیے بغیر ایسا کرنا ممکن ہے؟

میرا خیال ہے کہ ہاں، لیکن 'یہ تو آنے والے کل کی ریٹنگز ہی بتائیں گی۔'

ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

AHMED ZARAR May 24, 2016 02:59pm
Japatna,Palatna ,Palat ka Japatna***Lahu garm Rakhna Kaa Ha Aik Bahana
LIBRA May 24, 2016 03:28pm
IMPRESSIVE WRITING... MENTIONING BITTER REALITIES
[email protected] May 24, 2016 03:52pm
Well written. I agree with you 100%. Songs with news is only in Pakistani news media. It is so cheap, so disgusting, making fun of new delivery as well as of the person (people, institution, countries, and society in general). Breaking news is also funny. Same sentence is repeated ten times with in a short span of a minute or minute and a half. What does media want to achieve by this.? only God knows. And, the anchors are so pathetic, screaming the " news" at the top of their voice. I have not seen such a cheap journalism anywhere in the world (civilized). These news caster would not allowed to deliver like that anywhere even for a minute Except in some funny program. I immediately change to foreign channel when ever there is a breaking news. I can't bear this stupidity. I really wish some one would know how to deliver news properly. Can there be a Pakistani Walter Cronkite or Dan Rather? I wish!
وسیم رضا May 24, 2016 06:07pm
بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔
Muhammad kashif munir bhatti May 24, 2016 06:11pm
very true, ever seen these kinds of news. Tann taan taan ...... Mar gia, mar dia... Jal gia, jala dia... For God sake yar, never ever some educated news no education channel, even what s going on world wide in research, nation & country base on these kind of stuff. Plz write on education too, not on take admission in university...... admission open and education is expensive than Europe. i agree 200% with writer, plz DAWN news you guys take some step to write on research stuff.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024