وزیراعظم۔آرمی چیف ملاقات:آڈیوکیسے لیک ہوئی؟
کراچی: وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقات کی ویڈیو فوٹیج نے اس وقت کئی سوالات کو جنم دیا، جب ویڈیو میں بات چیت کی غیر متوقع آڈیو بھی سنائی دی گئی۔
ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی فوٹیج میں سنا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم، آرمی چیف سے ون آن ون ملاقات میں کہہ رہے ہیں کہ ’تاریخ دے دی گئی ہے۔‘
اگرچہ فوٹیج میں آواز صاف نہیں تھی اور آرمی چیف کا جواب بالکل غیر واضح تھا، لیکن ایک ٹی وی صحافی نے جنرل راحیل شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو وہاں اس تاریخ سے پہلے پہنچنا ہے۔‘
سول ملٹری قیادت کے درمیان اعلیٰ سطح کی ملاقات کی کیمرے سے عکس بندی معمول کی بات ہے، لیکن اس میں کبھی آواز سنائی نہیں دیتی۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس:آرمی چیف کا معاملہ حل کرنے پر زور
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے سابق نیوز انچارج نے اس وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسٹینڈرڈ پروٹوکول کے مطابق، فوٹیج میں آواز بند ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی آواز کیمرے کے مائیکروفون کے ذریعے محفوظ کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ سرکاری ٹی وی پر نشر ہوتی ہے تو اس کی آواز ہمیشہ بند کردی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوٹیج کی ریکارڈنگ پی ٹی وی کا کیمرا مین یا وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد ہونی والی تقریبات کے لیے تفویض عملے کا رکن کرتا ہے، لیکن ملاقاتوں کی آواز کبھی ریکارڈ نہیں کی جاتی۔
ویڈیو کی آواز نشر ہونے کا وقت بھی معنی خیز ہے کیونکہ یہ عین اس کے بعد نشر ہوئی جب نامعلوم ذرائع نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات میں آرمی چیف نے، وزیر اعظم نواز شریف کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پاناما لیکس کا معاملہ جلد حل کریں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کا ماننا ہے کہ یہ مسئلہ عدم استحکام اور عدم تحفظ کا باعث بن رہا ہے۔
تاہم وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں اس بات کی تردید کی گئی اور میڈیا سے کہا گیا کہ وہ غیر متعلقہ مسائل اور ذرائع سے حاصل ہونے والی قیاس آرائیوں پر کان نہ دھرے۔
خواجہ آصف کا استدلال
بعد ازاں جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں پاناما لیکس کا معاملہ زیر بحث آنے کی تردید کی۔
انہوں نے کہا کہ ’جس میڈیا چینل یا صحافی نے یہ بات لیک کی، وہ کیا ملاقات میں موجود تھا؟ یہ ون آن ون ملاقات تھی، تو کسی تیسرے شخص کو اس کی تفصیلات کیسے ملیں؟ پاناما لیکس سیاسی معاملہ ہے جو خود اپنی موت آپ مر رہا ہے۔‘
اس تمام صورتحال سے اس قیاس آرائی کو بھی تقویت ملی کہ بلاامتیاز احتساب کے معاملے پر سول ملٹری تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔
پاناما لیکس کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب پاناما پیپرز میں وزیر اعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔
اگرچہ پاناما لیکس میں کئی دیگر سیاسی رہنماؤں کی آف شور کمپنیوں کے بھی انکشافات سامنے آئے تھے، لیکن اپوزیشن وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان سے اس کی تحقیقات کے آغاز کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں عدالتی کمیشن کے لیے حکومت اور اپوزیشن، اپنے علیحدہ علیحدہ ٹرمز آف ریفرنس بھی پیش کرچکے ہیں، لیکن دونوں جانب سے ان ضوابط کار میں اختلافات کے باعث تحقیقات تاخیر کاشکار ہے۔
اتفاقی طور پر پاناما لیکس نے اس بات سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی آپریشن کے حوالے سے حکومت اور فوج کے درمیان تنازع تاحال برقرار ہے۔
پنجاب میں فوجی آپریشن کے حوالے سے حکومت نے ابتدا میں مزاحمت کی تھی، لیکن لاہور کے گلشن اقبال پارک میں دھماکے کے بعد فوج نے یکطرفہ طور پر آپریشن کا آغاز کردیا تھا۔
یہ خبر 12 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (4) بند ہیں