مسلمان خاکروبوں کی تعیناتی سےہسپتالوں کی صفائی متاثر
پشاور: صوبہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں مسلمان خاکروبوں کی سیاسی طور پر بھرتی سے ہسپتالوں کی صفائی کا نظام بُری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ بھرتی ہونے والے اکثر افراد بیت الخلاء کی صفائی کو اچھا کام نہیں سمجھتے۔
ذرائع کے مطابق ہسپتالوں میں صفائی کی صورتحال اُس وقت بہتر تھی جب مسیحیوں کو خاکروب کے طور پر تعینات کیا گیا تھا، کیونکہ وہ یہ کام اپنے آباء و اجداد کی پنجاب سے ہجرت کے بعد سے 50 سال کے عرصے سے انجام دے رہے ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں صفائی کے نظام کو بہتر رکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ خاکروب کے عہدے پر بھی وزیروں اور سیاستدانوں کے کہنے پر مسلمانوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دے رہے۔
حال ہی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر(ڈی ایچ او) اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ماہانہ اجلاس میں صوبائی ہیلتھ سیکریٹری کو اس بات سے آگاہ کیا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں، ڈسپنسری اور بنیادی صحت کے مراکز میں بہتر صفائی کے لیے انہیں مسیحی خاکروبوں کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمان خاکروب اس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔
ایک سینئر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جن افراد کو صفائی کا نظام بہتر بنانا تھا انہوں نے کام کرنے سے ہی منع کردیا ہے، جبکہ سیکریٹری نے متعدد ڈی ایچ اوز سے اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ یہ کام گذشتہ 20 سال سے مسیحیوں کے ذمے تھا جو اسے بھرپور انداز میں سرانجام دے رہے تھے، پھر جب مختلف حکومتوں نے اقلیتوں کے ان عہدوں پر سفارشی افراد کو بٹھانا شروع کیا تو اس اقدام سے حکومتی ہسپتالوں کی صفائی کا نظام بالکل خراب ہوگیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیت الخلاء کی صفائی کی صورتحال بہتر بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ وارڈز اور او پی ڈی میں موجود بیت الخلاء بھی خراب حالت کا شکار ہیں۔
گریڈ 4 کے اقلیتوں کی ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صوبائی نائب صدر شاہد غوری نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ جب سے حکومت نے مسلمان مردوں اور خواتین کو خاکروب مقرر کیا ہے، مسیحیوں کو ڈھیر ساری مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ ان کے پاس اور کوئی کام نہیں ہے، ساتھ ہی ہندوؤں اور سکھوں کو بھی خاکروب کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔
شاہد غوری کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے مسیحی خاکربوں کی ترقی کے لیے 5 فیصد کوٹہ رکھا ہے جس سے وہ ترقی پا کر کلرک، لیب ٹیکنیشن اور ڈسپنسر کے عہدے پر پہنچ سکتے ہیں، مگر ان لوگوں کو کبھی ترقی نہیں دی گئی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے 2013 میں عدالت سے اپیل کی تھی کہ محکمہ صحت کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ خاکروب کے عہدے صرف مسیحیوں کو دیئے جائیں، اس حوالے سے عدالت کی جانب سے ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں، لیکن سیاست دانوں نے اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اپنی سفارش سے ایسے لوگوں کو یہ کام سونپا جو وارڈ میں بھی برش پکڑنے کے لیے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کے ساتھیوں پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا تھا۔
ذرائع کے مطابق صوبے بھر میں 800 مسیحی خاکروب حکومتی ہسپتالوں میں کام کرتے تھے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 180، خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں 140 اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں 125 مسیحی موجود ہیں جبکہ چارسدہ، مردان، بنوں، کوہاٹ، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹس میں 5 سے 10 مسیحی خاکروب موجود ہیں کیونکہ باقی عہدوں پر مقامی افراد نے قبضہ کر رکھا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ باقی اضلاع میں چند ہی مسیحی خاکروب موجود ہیں جس کی وجہ سے اکثر صحت کے مراکز میں موجود بیت الخلاء کام نہیں کر رہے۔
صوبے بھر میں 2718 خاکروبوں میں سے 1938 خاکروب پشاور کے 3 اور ایبٹ آباد کے ایک ہسپتال میں کام کرتے ہیں، جبکہ صرف 780 خاکروب سارے اضلاع کے صحت کے مراکز کی صفائی کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے گریڈ 4 کے اقلیتوں کی ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر نبی امین کا کہنا تھا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال نے اُن مسلمان خاکروبوں کو جو اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دے رہے تھے، ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے، ان کا کہنا تھا ہسپتالوں میں خاکروب مسیحی ہونے چاہیئیں۔
نبی امین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہسپتال کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب مسلمان خاکروب اُس طریقے سے اپنی کارکردگی انجام نہیں دے پا رہے تھے جیسے وہ دیگر فرائض جیسے کمپیوٹر آپریٹر اور ٹیکنیشن کا کام صحیح طور پر انجام دے رہے تھے، جبکہ مسیحی خاکروبوں کو اضافی کام بھی سنبھالنا ہوتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں 17ہزار مسیحی خاکروبوں کے لیے بھی ہیلتھ الاؤنس دیا جائے جیسے ڈاکٹرز، نرسوں اور ہسپتال کے دیگر عملے کو دیا جاتا ہے۔
یہ خبر 10 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔