بینظیرقتل کیس:'مشرف کی دھمکی آمیزکال ٹریس نہ ہوسکی'
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا کہنا ہے کہ ٹیم سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے محترمہ کو کی جانے والی مبینہ طور پر دھمکی آمیز فون کال کو ٹریس نہیں کرسکی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد خالد قریشی مذکورہ ہائی پروفائل کیس کے سلسلے میں استغاثہ کے آخری گواہ تھے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے جرح کے دوران خالد قریشی نے اعتراف کیا کہ جے آئی ٹی بینظیر بھٹو کے دونوں موبائل فونز یا پرویز مشرف کے موبائل فون سے اس قسم کی کوئی کال ٹریس نہیں کرسکی۔
تاہم انھوں نے امکان ظاہر کیا کہ جنرل مشرف نے یہ فون کال اپنے کسی سرکاری فون سے کی ہوگی۔
مزید پڑھیں:'پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو دھمکایا تھا'
استغاثہ کا یہ کیس اُس دھمکی آمیز کال پر مشتمل تھا، جو پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو اُس وقت کی جب وہ امریکی کانگریس مین ٹام لینٹوس کے دفتر میں موجود تھیں۔
استغاثہ کے مطابق امریکی لابیسٹ مارک سیگل نے دعویٰ کیا تھا کہ 25 ستمبر 2007 کو واشنگٹن میں کانگریس مین لینٹوس کے دفتر میں ان کی موجودگی کے دوران بینظیر بھٹو کو ایک کال موصول ہوئی، جسے انھوں نے مشرف کی جانب سے 'ایک بہت بری کال' قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ سابق فوجی آمر نے بھٹو کو خبردار کیا تھا کہ 'ان کی حفاظت کا دارومدار ان کے (یعنی مشرف اور بینظر بھٹو) کے تعلقات پر منحصر ہے'۔
یہ بھی پڑھیں:مشرف نے مارک سیگل کا بیان چیلنج کردیا
مارک سیگل کے مطابق بینظیر بھٹو نے انھیں 26 اکتوبر 2007 کو ایک ای میل بھیجی جس میں انھوں نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انھیں کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار پرویز مشرف ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ محترمہ نے 16 اکتوبر 2007 کو مشرف کو لکھے گئے ایک خط میں بھی کچھ افراد کو نامزد کیا تھا، جن میں ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ حمید گل اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کا نام شامل تھا۔
جرح کے دوران بیرسٹر فروغ نسیم نے قریشی سے سوال کیا کہ کیا انھوں نے مذکورہ ای میل کی فرانزک رپورٹ جےآئی ٹی کو جمع کرائی، جس پر انھوں نے اعتراف کیا کہ عدالت میں کوئی فرانزک رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ ای میلز بینظیر بھٹو کے آفیشل اکاؤنٹس سے بھیجی گئیں اور انھیں کسی فرانزک آڈٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بینظیر بھٹو کے قتل کا راز
قریشی نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ان کے پاس جنرل مشرف اور اُس وقت کے راولپنڈی کے سٹی پولیس افسر سعود عزیز کی گفتگو کے براہ راست شواہد موجود ہیں، کیونکہ استغاثہ نے الزام عائد کیا تھا کہ عزیز نے واقعے کے بعد جائے وقوع کو صاف کروا کر تمام شواہد ضائع کروایئے تھے تاکہ مشرف کے ملوث ہونے کا اشارہ نہ مل سکے۔
اپنے تحریری بیان میں قریشی کا کہنا تھا کہ 'تحقیقات کے دوران انھوں نے ذاتی طور پر (ر) جنرل حمید گل، (ر) بریگیڈیئر اعجاز شاہ، زمرد خان (سابق ایم ڈی بیت المال) فرحت اللہ بابر، (ر) جنرل توقیر ضیاء، سینیٹر رحمٰن ملک، خسرو پرویز، (ر) بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کے بیانا ت ریکارڈ کیے اور سابق سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ سمیت متعدد افراد کو ذاتی سوالنامے بھی بھیجے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے پرویز مشرف، ڈی آئی جی عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کو ہائی پروفائل کیس میں شامل کیا۔
جب بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ قریشی نے پرویز مشرف کو ذاتی چپقلش کی بناء پر بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں نامزد کیا تو قریشی کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ ہیں اور کئی ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:بینظیر کا قتل: گہرے پُراسرار سائے برقرار
انھوں نے پرویز مشرف کے ساتھ ذاتی چپقلش سے بھی انکار کیا اور کہا کہ وہ 2003 میں مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بھی تفتیشی افسر تھے جس میں عدالت نے 6 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔
سینیئر وکیل ملک رفیق کی درخواست پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج رائے ایوب خان مارتھ نے کیس کی سماعت 11 مئی تک ملتوی کردی۔ اگلی سماعت پر وکیل ملک رفیق جے آئی ٹی سے جرح کریں گے۔
یہ خبر 6 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔