• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

کراچی کے درخت ایک بار پھر تیزی سے کٹنے لگے

شائع May 5, 2016

کراچی: ملک کےسب سے بڑے شہر کی اہم ترین شاہراہ شارع فیصل پر متعدد درخت کاٹ دیئے گئے جس کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق کراچی میں اشتہاری بورڈز واضح کرنے کے لیے شارع فیصل پر رات گئے بے دریغ گھنے درخت کاٹے گئے۔

جس وقت درخت کاٹے جا رہے تھے کسی بھی سرکاری محکمے یا پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تاہم سوشل میڈیا پر اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور شہریوں نے گرم موسم میں درختوں کی کٹائی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔

درختوں کی کٹائی پر فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی سخت مذمت کی گئی اور احتجاج کا عندیہ دیا گیا۔

بعد ازاں درختوں کی کٹائی کا مقدمہ ایئرپورٹ تھانے میں درج کیا گیا جس کے مدعی محکمہ باغات کے ڈی ڈی او تنویر احمد تھے تاہم ایف آئی آر نا معلوم افراد کے خلاف درج کی گئی اور مقدمے میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا۔

مقدمے میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر دفعات شامل کی گئیں۔

خیال رہے کہ سندھ حکومت نے درختوں کو کاٹنے پر سزاء کا قانون تو بنا دیا ہے تاہم تحفظ کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔

واضح رہے کہ میٹرو بس منصوبے کے لیے بھی نارتھ ناظم آباد میں بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے ہیں۔

کراچی میں اس وقت گرمی کی لہر جاری ہے، جس میں وقت کے ساتھ مزید شدت آئے گی، ایسے میں درخت ہی شہریوں کے لیے چھاؤں کا ذریعہ ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عام درخت سال میں تقریباً 12کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور 4 افراد کے لیے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔

مینٹیننس آف ٹری اور پبلک پارکس آرڈیننس 2002 کے تحت درخت کاٹنا جرم ہے جبکہ سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس 2001 میں بھی ایسی ہی پابندی لگائی گئی ہے، ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے ادارے بھی قائم ہیں، عدالتوں نے احکامات بھی جاری کیے لیکن بلڈرز، ڈیولپرز، ایڈورٹائزرز اور ٹرانسپورٹر سمیت مختلف شعبوں کے لوگ پھر بھی درخت کاٹ ڈالتےہیں۔

سندھ حکومت نے کچھ عرصہ قبل 'نیم' کو صوبے کا درخت قرار دے کر 85 لاکھ پودے لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ ملیر ندی کی 5ہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل پارک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا لیکن ان منصوبوں پر عملدر آمد نہیں ہوسکا۔

وزیر اعلیٰ اور کمشنر کا نوٹس

وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے شارع فیصل پر درخت کاٹنے کا نوٹس لے لیا۔

قائم علی شاہ نے کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ کو فون کرکے فوری طور پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیراعلی سندھ نے درخت کاٹنے والوں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔

دوسری جانب کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ کا کہنا تھا کہ درختوں کی کٹائی میں ملوث افراد کو نہیں چھوڑا جائے گا اور ایسے عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔

آصف حیدر شاہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ایسے واقعات کی نشاندہی کریں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے۔

یاد رہے کہ 3 ہفتے قبل بھی شہید ملت روڈ کے گرین بیلٹ پرلگے 70 گھنے درختوں کو کاٹنے کا مقدمہ ایک بلڈر کے خلاف درج کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال جون 2015 کے آخری 10 روز میں شدید گرمی کے باعث کراچی میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق شہر میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ ہوا جبکہ بارشوں کا نہ ہونا بھی شجر کاری نہ ہونے کے باعث ہے۔

مضمون پڑھیں : کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے رفیع الحق کے مطابق درخت لگانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

رفیع الحق کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی عمارتوں نے شہر کا دم گھونٹ دیا ہے اور ہمیں درخت لگا کر اسے بحال کرنا چاہیے۔

تصاویر دیکھیں : کراچی کے شہری گرمی سے پریشان

تقریباً ایک دہائی قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کراچی بلدیاتی حکومت میں سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے شہر کی آلودگی ختم کرنے کے لیے 25 لاکھ ایسے درخت لگائے تھے، جو آلودگی تو کیا ختم کرتے مگر یہ لوگوں میں الرجی کا سبب بننے لگے۔

رفیع الحق کے مطابق پودوں کا یہ انتخاب تحقیق کی کمی کی وجہ سے تھا۔

مزید تصاویر: کراچی گرمی سے نڈھال

انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کو نیم کے درختوں کی ضرورت ہے، جو اس سخت آب و ہوا کو جھیل سکیں یہ درخت لگانے کا بہترین وقت 15 جولائی سے 15 ستمبر تک ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ جولائی 2015 میں ہی سندھ کے اُس وقت کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے محکمہ بلدیات اور ماتحت اداروں کی مدد سے 2 ماہ میں سندھ میں 30 لاکھ درخت لگانے کا اعلان کیا تھا، جس میں جولائی اور اگست میں صرف کراچی میں 10 لاکھ درخت لگائے جانے تھے لیکن شرجیل انعام میمن کی جانب سے اس اعلان پر کسی بھی قسم کا عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں : دنیا کے 16 شاندار درخت

خیال رہے کہ شرجیل میمن سے دسمبر 2015 میں محکمہ بلدیات کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھا، وہ گزشتہ برس سے ہی بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہے، فروری 2016 میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے حکومتی اشتہارات کی مد میں سرکاری خزانے کو 5ارب روپے کا نقصان پہنچایا.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Sharminda May 05, 2016 05:25pm
Apni madad aap kay tehat darakht laganay bhi chahiay aur un ki hifazat bhi karni hogi. Shah sahab neend say baidar hoon tu kuch karain. Thar main masoom bachoo ko koi poochnay waala nahin tu in bay zaban darakton ki kon fikr kray gaa.
یمین الاسلام زبیری May 05, 2016 11:19pm
میں اس موقع کا فائدہ اٹھا کر حکومت سندھ کی توجہ ببول کی طرف دلانا جاہتا ہوں۔ سندھ اور کراچی میں بالخصوص ببول، جسے کیکر بھی کہتے ہیں، بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہ خود رو ہے اور اسے بہت کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی لکڑی کے بہت سے استعمال ہیں جن میں ایندھن کے طور پر اس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ ندی نالوں میں دیکھا گیا ہے کہ اس کے جنگل کے جنگل اگ جاتے ہیں جن کی کوئی حفاظت نہیں کی جاتی اور نہ ان پہ توجہ دی جاتی بھی ہے۔ جس وقت یہ درخت چھوٹا ہوتا ہے تو ذرا بدنما ہوتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سایہ دار ہوتا چلاجاتا ہے اور ساتھ ہی ہرا بھرا بھی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ فٹپاتوں پر بیٹھے موچی اسے لگا لیتے ہیں اور اس کے سایہ میں کام کرتے ہیں۔ اگر اس درخت کو مناسب جگہوں پر لگایا جائے تو اس سے نہ صرف لکڑی اور سایہ ملے گا بلکہ پانی کی بچت بھی ہوگی کیونکہ یہ ایک صحرائی درخت ہے۔ ہم اللہ کی اس دین سے فائدہ نہ اٹھا کر ناشکری کا ثبوت دے رہے ہیں۔
Prof. Dr. Ahmaq May 06, 2016 03:03pm
@یمین الاسلام زبیری bohat acha mashwarah hey lkin amal kon karey gaa ----wazahat kar diy hotiy agar aor woh bhi kitni investment sey konsa mehkama yeh kaam kareyga???????????

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024