احتساب ایک سبز باغ
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں احتساب کے حوالے سے بیان جاری کیا۔ مرے پہ سو درے کے مصداق جنرل راحیل شریف نے 6 فوجی افسران کو کرپشن پر برطرف بھی کر دیا۔ اس اقدام کا پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر خیر مقدم کیا، کیونکہ قوم سیاستدانوں سے بیزار اور طاقت کے مرکز کو پہچان گئی ہے۔
تازہ ترین برطرفی پر بات کرنے سے پہلے ماضی کے احتساب کے چند سبز باغوں میں چہل قدمی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے گوہر نایاب کرپشن کے گل کھلا کر سزا کی بہاریں سمیٹ رہے ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ احتساب کا عمل کبھی بھی شفاف نہیں رہا۔ کبھی اس میں این آر او کا پیوند لگایا گیا، تو کبھی کسی سیاسی پارٹی کو سبق سکھانے کے لیے، غرضیکہ ہر دور میں ہی احتساب کے عمل کو حکومت وقت اور طاقت کے حامل اداروں نے اپنی دھاک جمانے کے لیے استعمال کیا۔
متعدد سیاستدان اور رہنما ہمارے سامنے زندہ مثال ہیں جو کرپشن کے تمام تر الزامات کے باوجود پاکستان کے اقتدار پر براجمان ہیں۔ سزا کیسی ؟ جیل میں چند سال کلاس اے کے ساتھ ، چند ایک کو کلاس بی۔ اور اثاثے؟ وہ اوپر سے اور اوپر تک سفر کر رہے ہیں۔
کرپشن سیاست اور سویلین اداروں میں ہو یا فوجی اداروں میں، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ میرے نزدیک اگر کسی بھی ملک کی سیاست اور فوج کاروبار، تجارت اور کارخانے جیسی چیزوں میں اُلجھ جائے تو کرپشن کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
ایک عام آدمی کے لیے یہ بات، کہ کوئی جنرل بھی کرپٹ ہو سکتا ہے، بہت حیرت کی بات ہے کیونکہ اس کے نزدیک فوج کا کام ملک کا دفاع، سرحدوں کی حفاظت، ملکی سالمیت اور وطن عزیز کو بیرونی دشمنوں کے ہر قسم کے حملوں سے بچانا ہے۔
مگر کیونکہ فوج معیشت میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور اپنے چار اداروں فوجی فاؤنڈیشن، بحریہ فاؤنڈیشن، شاہین فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفئیر ٹرسٹ اور ان سے منسلک سینکڑوں کمپنیاں اور کارخانے بھی چلا رہی ہے جیسے کہ شوگر، کھاد، سیمنٹ اور پلاسٹک بنانے کے کارخانے، بیکریاں، تعلیمی ادارے، بینک، ایئرلائنز، انشورنس، زرعی اراضی کی ٹھیکیداری، لاجسٹکس اور تعمیرات۔ ان جیسے منافع بخش اداروں کی موجودگی میں لالچ اور کرپشن عین ممکن ہے۔ اور جہاں کرپشن آ جائے وہاں احتساب کا عمل ضروری ہو جاتا ہے۔
پڑھیے: بلاتفریق سب کا احتساب ضروری ، آرمی چیف
فوج میں احتساب کا عمل کوئی نئی چیز نہیں، کورٹ مارشل اور فوجی عدالتیں ایک پورا نظام ہے جو فوجی جرائم کے حوالے سے موجود ہیں۔ فوج کا اپنا مروجہ نظام ہے جس کے تحت وہ سزائیں دیتے ہیں، سویلین اداروں کا الگ نظام ہے عدالتیں ہیں جس کے تحت وہ سزائیں دیتے ہیں۔
کرپشن دونوں طرف ہے۔ ایک طرف کی کرپشن کو میڈیا میں اچھالا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف کی کرپشن کی سن گن بھی ممکن نہیں، اور سزائیں بھی دونوں طرف کی کچھ ایسی ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ سزا ہی ہوئی ہے نا؟ ایسی ہی کرپشن کے کچھ کیس اور ان میں ملنے والی کچھ ناقابلِ فہم سزائیں یاد آ رہی ہیں۔
1999 میں جنرل پرویز مشرف نے لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کو نیب کا چیئرمین مقرر کیا۔ مقصد احتساب تھا۔ اس پر جنرل پرویز مشرف نے لیفٹیننٹ جنرل امجد کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے کہا کہ کڑا احتساب کرنا ہے، کسی کو نہیں چھوڑنا۔
جنرل پرویز مشرف کی تھپکی پا کر لیفٹیننٹ جنرل امجد نے احتساب کا عمل شروع کیا اور اس کا آغاز بینک کے قرضوں سے کیا۔ ان کا ٹارگٹ صرف سیاست دان اور تاجر تھے، جج صاحبان، صحافی اور جرنیل ابھی ان کی فہرست میں نہیں تھے۔ سنا ہے کہ کچھ جرنیل ان کی فہرست میں آئے ہی تھے کہ نیب میں ان کا وقت پورا ہو گیا اور ان کو فوجی فاؤنڈیشن کا ایم ڈی بنا دیا گیا۔
پھر ایک اسیکنڈل سامنے آیا۔ فوجی فاؤنڈیشن نے کھوسکی شوگر مل فروخت کے لیے پیش کی تو ایک پارٹی نے اس کی قیمت 387 ملین روپے لگائی، جبکہ دوسری پارٹی نے اس کی قیمت 300 ملین لگائی۔ حیرت انگیز طور پر شوگر مل دوسری پارٹی کو فروخت کر دی گئی، جس نے اگلے ہی روز شوگر مل کو 387 ملین روپے میں پہلی پارٹی کو فروخت کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ دوسری پارٹی لیفٹیننٹ جنرل امجد کے احباب میں سے تھی۔ بعد میں احتساب کرنے والے خود احتساب کی زد میں آئے میں، مگر نتیجہ؟ 2007 میں کے الیکٹرک کے سی ای او کے طور پر منتخب ہوئے۔
پڑھیے: ڈی ایچ اے اسکینڈل: کیانی کے خلاف تحقیقات کی درخواست
پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل منصور الحق کا نام آگسٹا آبدوز اسیکنڈل میں سامنے آیا، اور اس سنگین نوعیت کے الزام پر ان کو برطرف کر دیا گیا۔ کروڑوں روپے کا کمیشن اور خوردبرد کے اس اسکینڈل میں آصف علی زرداری پر بھی الزامات عائد کیے گئے تھے، مگر ہوا کیا؟ منصور الحق بیرون ملک چلے گئے، پھر وہاں گرفتار ہوئے اور ایک عام قیدی کی زندگی گزاری۔ اور پریشان ہو کر از خود پاکستان آئے۔ یہاں مقدمہ چلا، عدالت نے سات سال کی قید سنائی، پلی بارگین میں رقم دی گئی، سزا ختم ہوئی، پینشن بحال کروانے کے لیے کیس دائر کر رکھا ہے، اور مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ ایک صاحب نے فوج میں چھوٹے موٹے ٹھیکوں سے کام شروع کیا، اور بعد میں اعلیٰ فوجی افسران تک رسائی حاصل کی۔ یہ رسائی پھر ایسی شناسائی میں بدلی کہ وہ صاحب آج وطن عزیز کے جانے مانے بلڈر ہیں اور ٹاؤن پر ٹاؤن تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
نیشنل لاجسٹکس سیل میں ہونے والی کرپشن کا چرچا بھی کافی عرصے کے بعد سامنے آیا اور اس پر کافی عرصہ چلتا رہا۔ اس کرپشن سے ادارے کو 1.8 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ 2009 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اسے سامنے لے کر آئی اور 2015 میں جا کر فوج نے اس کا فیصلہ سنایا۔ میجر جنرل خالد ظہیر اور لیفٹینینٹ جنرل محمد افضل سے ان کے ملٹری اعزازت واپس لینے کے ساتھ پینشن اور دیگر سہولیات بھی واپس لے لی گئیں۔۔ کرپشن 4 ارب روپے سے زیادہ کی بتائی گئی تھی۔ اس کیس میں بھی صرف سوال ہی باقی ہیں کہ وہ 4 ارب روپے قومی خزانے میں واپس آئیں گے؟ یا آ گئے؟ کرپشن کرنے والوں کو سزا کیا دی جائے گی؟ یا بس یہی سزا تھی؟
ڈی ایچ اے لاہور میں بھی اسکینڈل کی باز گشت ہے اور اس میں سابقہ آرمی چیف کے بھائی اور کئی بااثر لوگوں کے ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
پڑھیے: فوج میں احتساب
موجودہ آرمی چیف جناب راحیل شریف بے پناہ متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ حال ہی میں کرپشن کے حوالے سے آپ کے کیے جانے والے اقدامات سے مجھے حوصلہ ملا ہے کہ میں کچھ سوالات کر سکوں۔ آپ نے کئی فوجی افسران کو کرپشن ثابت ہونے پر برطرف کر دیا، میرا سوال یہ ہے کہ کیا برطرفی اور اعزازت سے محرومی سزا مانی جائے؟ یا سزا ابھی باقی ہے اور وہ دی جائے گی؟
ایک آخری بات جو کئی برس سے اخباروں کی زینت بن رہی ہے، وہ ہے اوکاڑہ ملٹری فارمز!
17 ہزار ایکڑ پر پھیلے ہوئے فارمز 1908 میں برطانوی حکمرانوں نے کسانوں کے حوالے کیے۔ زمین پنجاب ریونیو بورڈ کے زیرِ انتظام تھی، اور کسانوں سے کہا گیا کہ 1914 میں انہیں مالکانہ حقوق دے دیے جائیں گے۔ 1913 میں برٹش آرمی نے زمین پنجاب ریونیو بورڈ سے لیز پر لی۔ 1933 میں مزید پانچ سال کے لیے معاہدے میں توسیع کروا لی۔ اس کے بعد 1947 میں یہ زمین پاکستان آرمی کے زیر انتظام آ گئی۔
آج تک اس زمین کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہو سکا جبکہ کئی لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں!، باقاعدہ مزارعین کی تحریک بن چکی ہے جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، اور مرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ احتساب کی ضرورت اس کیس کو ہے، اس سے پہلے کہ یہ کیس ایک ناسور بن جائے، اس کیس میں شفاف طریقے سے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
عسکری ادارے ہوں یا سیاسی قیادت، احتساب کا عمل اگر خود ایک سوالیہ نشان بن جائے تو کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ احتساب کا عمل تب ہی مکمل ہو سکتا ہے جب احتساب شفاف طریقے سے اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو۔
تبصرے (3) بند ہیں