بحیرہ روم: کشتی الٹنے سے 500 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ
جنیوا: اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ریفیوجی ایجنسی) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گذشہ ہفتے بحیرہ روم میں کشتی سمندر میں ڈوب جانے سے 500 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعہ اٹلی اور لیبیا کے درمیان سمندری حدود میں پیش آیا، جس کی اطلاع 16 اپریل کو ایک تجارتی جہاز کی جانب سے بچائے گئے 41 افراد نے دی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا تھا کہ اگر مذکورہ واقعے کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ گذشتہ سالوں میں پیش آنے والے سانحات میں اب تک کا سب سے بڑا سانحہ ہوگا۔
مزید پڑھیں: بحیرہ روم: 200 صومالی تارکین وطن ڈوب کر ہلاک
واقعے میں بچ جانے والے افراد نے بتایا ہے کہ ان کا تعلق ان 100 سے 200 افراد میں سے ہے جنھوں نے گذشتہ ہفتے لیبیا میں تبروک ٹاؤن سے اسمگلروں کی کشتی پر سفر کا آغاز کیا تھا۔
ایجنسی کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد اسمگلروں کے انچارج نے مسافروں کو ایک ایسی بڑی کشتی پر منتقل کرنا چاہا جو پہلے سے پُرہجوم تھی۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق اس منتقلی کے عمل کے دوران ایک ایسا موقع آیا کہ بڑی کشتی مسافروں کی زائد تعداد کی وجہ سے ڈوب گئی۔
ایجنسی کا کہنا تھا کہ ان کے اہلکاروں نے واقعے میں بچ جانے والے افراد سے یونان میں کالاماتا کے مقامی اسٹیڈیم میں ملاقات کی ہے جن کی دیکھ بحال مقامی حکام کررہے ہیں اور یہ تارکین وطن پولیس کارروائی کی تکیمل کا انتظار کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لیبیا: سمندر میں کشتی ڈوبنے سے تقریباً 400 افراد ہلاک
روم سے تعلق رکھنے والی یو این ایچ سی آر کی ترجمان خاتون باربرا مولینارو نے بتایا کہ واقعے کی تفصیلات تاحال واضح نہیں ہوسکی ہیں اور ان کا اسٹاف بچ جانے والے افراد پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز صومالیہ کی حکومت نے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے تارکین وطن کی کشتی بحیرہ روم میں پیش آنے والے واقعے اور اس میں 200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
رپورٹس کے مطابق مصر سے روانہ ہونے والی کشتی میں 500 کے قریب افراد سوار تھے، جن میں صرف 40 کو زندہ بچایا جا سکا، ان افراد کی اکثریت غیر قانونی طور پر یورپ جانا چاہتی تھی۔
مزید پڑھیں: بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے سے 700 ہلاکتوں کا خدشہ
صومالیہ کے وزیرِ اطلاعات محمد عبدی ہائیر اکا کا ڈوبنے والے افراد کی تعداد کے بارے میں کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس کوئی حتمی تعداد موجود نہیں، مگر یہ 200 سے 300 کے درمیان ہے‘۔
محمد عبدی ہائیر اکا نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا کہ کشتی میں 500 افراد کی موجودگی کا امکان ہے، جن میں سے 200 سے 300 صومالی تارکینِ وطن تھے۔
قبل ازیں اٹلی کے صدر سرجیو ماتارلا نے خدشہ ظاہر کیا تھا بحیرہ روم میں ہونے والے سانحے میں 400 سے زائد افراد کی ہلاکت ہو سکتی ہے البتہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔
بڑے پیمانے پر صومالی تارکین وطن کی ہلاکت کے بعد صومالیہ کے صدر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بیرونِ ملک کے ایسے خطرناک سفر کو روکیں۔
اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ریفیوجی ایجنسی) کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ جانتے ہیں کہ زندہ بچنے والوں کی تعداد 40 ہے جبکہ مصر سے آنے والی اس کشتی میں مزید 460 افراد موجود ہوسکتے تھے‘۔
بین الاقوامی تنظیم برائے نقل مکانی کے مطابق اس سال کے آغاز سے 15 اپریل کے دوران 352 تارکین وطن پانی کی نذرہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک سال قبل لیبیا کے جزیرے کے پاس امدادی کشتی ایک مچھیروں والی کشتی سے ٹکرا گئی تھی، جس سے اس کشتی میں موجود 800 تارکین وطن ڈوب گئے تھے، جو بحیرہ روم میں ہونے والا سب سے بڑا سانحہ ہے ۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں