6 کروڑ غریبوں کے ٹیکس چور سیاستدان
ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں پاکستان میں موجود شدید معاشی ناہمواریاں کھل کر سب کے سامنے آ گئی ہیں۔
حکمران اشرافیہ کی بے شمار چھپی ہوئی دولت غیر متوقع طور پر پانامہ کے گہرے سمندروں کی سطح پر نمودار ہوگئی۔ اس کے چند دنوں بعد حکومت نے اس حقیقت کو تسلیم کیا جو دہائیوں سے سب کو معلوم تھی: اسلام آباد میں بیٹھے معاشی ماہرین اور سیاستدانوں نے ماضی میں جو تعداد بتائی تھی، اس سے کروڑوں زیادہ پاکستانی غربت و افلاس کا شکار ہو چکے ہیں۔
غربت کے تخمینے کے حوالے سے منعقد ایک سیمینار میں دو سینئر وزراء اسحاق ڈار اور احسن اقبال نے غیر متوقع طور پر واضح کیا کہ تقریباً ہر تین پاکستانیوں میں سے ایک اب ''باضابطہ طور پر'' غریب ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ کم از کم 6 کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مکمل حقیقت کیا ہے؟
اس ادھورے سچ کو تسلیم کرنے کی اچانک ضرورت کیوں پیش آئی؟ میں ادھورا اس لیے کہتا ہوں کیونکہ جس تعداد کا اعلان ہمارے قابل وزراء نے ہچکچاتے ہوئے کیا ہے، اس کے مقابلے میں پاکستان میں غربت اور بھی زیادہ ہے۔
وزراء نے اس بات کا اظہار کیا کہ گھریلو آمدن اور اخراجات کے حوالے سے 2014-2013 کے نئے اعداد و شمار کے تحت غربت کے نئے تخمینے کی ضرورت پڑی۔ نئے اندازوں کے مطابق 3 ہزار 30 روپے ماہانہ یا اس سے کم کمانے والا ہر بالغ شخص غربت کا شکار ہے۔
اگر حکومت غربت کے حوالے سے اپنے من پسند معیار میں تبدیلی نہ لاتی تو یہ تعداد 9.3 فیصد ہی ہوتی، جو 2014-2013 میں تھی۔ اصلاح شدہ معیار کے ساتھ، جس میں کم از کم 2350 کلیوریز کے استعمال اور دیگر ضروریات کی فراہمی کو بنیاد مقرر کیا گیا ہے، پاکستان میں غربت کی شرح اب 29.5 فیصد بنتی ہے۔
جولائی 2015 میں نے پاکستان میں پھیلی زبردست غربت پر ایک مضمون لکھا تھا۔ جب حکومت 14-2013 میں پاکستان میں محض 9.3 فیصد لوگوں کے غریب ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی، اس وقت ممتاز معاشی ماہرین نے 44.2 فیصد شرح غربت کا تخمینہ لگایا تھا۔
آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی جانب سے تشکیل دیے گئے غربت کے کثیر الجہتی معیار (ایم پی آئی) نے پاکستان میں منظم طور پر نامکمل اعداد شمار کی نشاندہی کی۔ شرحِ غربت بلوچستان (71 فیصد) اور سندھ (53 فیصد) میں تو اور بھی بدتر ہے۔
غربت اور سیاستدان
وزیر اعظم نواز شریف کے نکتہء نظر سے دیکھیں، تو ان کے دو بھروسہ مند ساتھیوں اسحاق ڈار اور احسن اقبال کی جانب سے کیے گئے غربت کے متعلق انکشافات مشکل گھڑی میں ایک نئی مصیبت سے کم نہیں۔ حال ہی میں ہوئے انکشافات نے شریف خاندان کو ٹیکس سے مستثنیٰ آف شور اکاؤنٹس میں موجود اربوں روپوں کا مالک ہونے کا اقرار کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس وجہ سے وزیراعظم اپنے گھرانے کی ساکھ کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
کچھ ہی دن پہلے پاکستانیوں کو اپنے حکمران اشرافیہ کی بے شمار دولت کی جھلک بھی دیکھنے کو ملی۔ تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آئی سی آئی جے کی جاری کردہ دستاویزات، جنہیں پاناما پیپرز کہا جا رہا ہے، میں وزیراعظم کے بچوں کے کروڑوں ڈالر کے پوشیدہ اثاثوں کا انکشاف کیا۔ مریم، حسن اور حسین 1990 کی دہائی کے اوائل میں برٹش ورجن آئییلنڈ میں قائم ہونے والی کمپنیوں کے مالک ہیں۔
دستاویزات میں ایک فرم کا پتہ جدہ میں موجود سرور محل درج ہے۔ ایک اور دستاویز، جس پر جون 2007 کی تاریخ درج ہے، کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچے جن کمپنیوں کے مالک ہیں، ان کمپنیوں نے لندن میں اپنی جائیداد کو گروی رکھتے ہوئے 1 کروڑ 38 لاکھ ڈالر کا قرضہ بھی حاصل کیا۔
بھلے ہی شریف خاندان نے اپنی دولت کوئی قانون توڑے بغیر جمع کی (اور چھپائی) ہو، لیکن اگر وہ ٹیکس فراڈ کے مجرم نہیں، تو کم از کم منافقت کے مجرم ضرور ہیں۔ جب یہ لوگ اپوزیشن میں تھے تو مسلسل بینظیر بھٹو کے گھرانے پر غریبوں کو لوٹنے اور اپنی دولت بیرون ملک جمع کرنے کا الزام لگاتے تھے۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ شریف خاندان بھی کی بھی جائیدادیں اور دولت سے لدے ہوئے بینک اکاؤنٹس بیرونِ ملک موجود ہیں، جہاں کسی ٹیکس ادارے کی نظر ان پر نہیں پڑ سکتی۔
امیر اور غریب کے درمیان خلیج عالمی سطح پر وسیع ہو رہا ہے۔
یہاں تک کہ شمال امریکا میں بھی متوسط اور نچلے متوسط طبقات کی آمدن جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ بلکہ معاشی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شمالی امریکا میں مہنگائی کو حسابات میں شامل رکھا جائے، تو نچلے متوسط طبقے کی گھریلو آمدن گراوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔
ٹورنٹو جہاں میں رہتا ہوں وہاں پر بھی امیر اور غریب کے درمیان تفریق بڑھی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر ڈیوڈ ہلچنسکی بتاتے ہیں کہ کینیڈا کے سب سے بڑے شہر میں متوسط طبقے کی آمدن گراوٹ کا شکار کس قدر ہوئی ہے۔
جہاں غیر مساوی آمدن ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہیں، وہیں اس تفریق کا سب سے زیادہ اثر کم آمدن والے ممالک پر پڑتا ہے۔ کیوںکہ کینیڈا یا امریکا کے برعکس پاکستان اور ہندوستان میں مفلسی میں رہنے والوں کے معیارِ زندگی میں مزید تنزلی ہوتی ہے، جو ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
مثلاً حالیہ دنوں میں اندرون سندھ میں سینکڑوں بچے خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ 2011 کے اوائل میں پاکستان قومی غذائی سروے کے مطابق ناقص خوراک کی وجہ سے 44 فیصد بچوں کی نشونما متاثر ہوئی۔
پچھلے سال ڈان ڈاٹ کام کے لیے مضمون لکھتے وقت میں نے مقتدر حلقوں سے درخواست کی تھی کہ ''قومی اور صوبائی سطح پر غربت میں کمی لانے کے لیے بامعنی اور سنجیدہ اقدام اٹھانے کے لیے آپ کو سب سے پہلے غربت کی مناسب تعریف اور پیمائش کی ضرورت پڑتی ہے۔ سرکاری شماریات میں غربت کو اصل سے کم دکھانے کی چال سے کوئی بھی بے وقوف نہیں بنتا۔''
پاکستان میں حکومت نے بے دلی سے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ غربت کی تعداد پہلے کے مضحکہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ درست سمت کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن اب بھی مکمل حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکامی نظر آتی ہے جو کہ یہ ہے کہ پاکستان میں (ایم پی آئی کے مطابق) شرح غربت 44 فیصد ہے، جو کہ حکومت کے لگائے گئے تخمینے 29.5 فیصد سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
پاکستان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مکمل حقیقت سے کام لیا جائے اور تمام رازوں سے پردہ اٹھایا جائے۔
پاکستان کی انتہائی امیر شخصیات، جو کہ حکمران اشرافیہ میں بھی شامل ہیں، انہیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ انہوں نے اپنی دولت کو غریب عوام سے مخفی طور پر ذخیرہ کیا ہے۔
صرف اس کے بعد ہی مقتدر حلقے ان لوگوں کی بدحالی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں