'داعش سے متاثر 25 عسکریت پسند کراچی میں فعال'
کراچی: پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ کراچی میں شدت پسند تنظیم داعش سے متاثر 2 درجن سے زائد فعال عسکریت پسند پائے گئے ہیں جو دہشت گردی کے بڑے حملوں کا منصوبہ بنارہے ہیں.
گذشتہ رات گلشن معمار میں 2 عسکریت پسندوں محمد مجاہد عرف طلحہ اور عبداللہ عرف کونا کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے سی ٹی ڈی کے سینئرسپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) جنید شیخ کا کہنا تھا کہ شہر میں داعش سے متاثر 25 عسکریت پسند فعال ہیں جو غیرملکی مشن، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور شاپنگ سینٹرز کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔
جب ان سے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے ملک میں داعش کی موجودگی کی تردید کے حوالے سے سوال کیا گیا تو جنید شیخ نے کہا کہ عسکریت پسند نظریاتی طور پر داعش سے منسلک اور صرف سوشل میڈیا کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں موجود تنظیم سے جڑے ہوئے تھے۔
اُنہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ عسکریت پسند لشکرِ جھنگوی، تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ سے منسلک رہ چکے ہیں، لیکن اب یہ داعش میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں ۔"
عزیز آباد سے میران شاہ
سی ٹی ڈی سندھ کے سربراہ ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے بتایا، 'مجاہد 1994 میں کراچی کے علاقے کورنگی میں پیدا ہو ا اور ایس ایم گرامر اسکول کورنگی میں آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کی، 2005 میں اس نے مدرسہ عمر ابنِ خطاب کورنگی میں داخلہ لیا ، جہاں سے وہ 2008 میں حافظِ قرآن بن کر نکلا'.
ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق، مجاہد نے بعد میں مدرسہ بیت الاسلام عزیز آباد میں داخلہ لیا جہاں اس کی ملاقات عسکریت پسند ضیاء الرحمٰن سے ہوئی۔
ضیاء نے مجاہد کو جہاد کی ٹریننگ اور اس کے بعد عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔
مزید پڑھیں:داعش کی نئی شکارگاہ پاکستان
دسمبر 2012 میں ضیاء الرحمٰن، مجاہد کو تربیت کے لیے اپنے ساتھ میران شاہ لے گیا اور پھر فروری 2013 میں وہ کراچی واپس آگیا۔
گلشنِ بونیر کا رہائشی ضیاء الرحمٰن، اگست 2015 میں داعش کے رہنما ازبک شہری عثمان غازی کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے قبل القاعدہ سے منسلک تھا۔
رابطہ
سی ٹی ڈی سندھ کے سربراہ ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی کے مطابق، 'مئی 2015 کے آغاز میں ضیاء نے الآصف اسکوائر، سہراب گوٹھ پر واقع ایک ہوٹل میں مجاہد کا تعارف کامران عرف موٹا سے کروایا، جہاں کامران نے خرچے کے لیے مجاہد کو 15 ہزار روپے دیئے اور ایک "لینوو" اسمارٹ فون دے کر اسے انڈرائیڈ ایپلیکیشن "زیلو" چلانا سکھائی جو فون میں پہلے سے موجود تھی'.
وہ موبائل فون بعد میں مجاہد سے سہیل عرف مہاجر نے لے لیا اور اسے دوسرا "ہواوے" موبائل دیا جس سے وہ رابطے میں رہے۔
بلوچستان سے تعلق
سی ٹی ڈی چیف نے بتایا، 'جون 2015 میں مجاہد اور کامران عرف موٹا نے بلوچستان کے علاقے وادھ کا سفر کیا، جہاں وہ شفیق مینگل کے حجرے میں ٹھہرے'.
یہ پڑھیں:’بلوچستان میں داعش کی موجودگی کو مسترد نہیں کیا جاسکتا‘
وہاں اس کی ملاقات معاذ سے ہوئی، جس نے اسے کراچی میں اپنے لیے کام کرنے پر قائل کیا، جس پر مجاہد نے ہامی بھرلی اور کراچی واپس آگیا۔
سی ٹی ڈی دستاویزات کے مطابق جولائی 2015 میں مجاہد نے ضیاء الرحمٰن کے ساتھ تربیت کے لیے ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے علاقے وادھ کا دورہ کیا ۔
دستاویزات کے مطابق، 'وادھ سے مجاہد کو 12-10 عسکریت پسندوں کے ساتھ پہاڑوں کے بیچ کہیں موجود تربیتی کیمپ لے جایا گیا'.
بلوچستان میں 2 ہفتے قیام کے بعد وہ کراچی واپس آگیا اور سہیل عرف مہاجر سے قریبی تعلقات قائم کیے جس نے ایک ملاقات میں مجاہد کو 7000 روپے دیئے تھے۔
اگست 2015 میں سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق کامران عرف موٹا، مجاہد اور کچھ افراد کو ساتھ لے کر بلوچستان کے علاقے وادھ پہنچ گیا، جہاں انہوں نے داعش میں شمولیت کا عہد کیا۔
داعش کی دو گروہوں میں تقسیم
سی ٹی ڈی دستاویزات کے مطابق اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے یہ عسکریت پسند وادھ میں رہتے ہوئے کچھ نظریاتی اختلاف کی بناء پر دو گروہوں میں بٹ گئے۔
تاہم اس تفریق کی نوعیت ابھی تک نامعلوم ہے۔
اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ 'بابا جی' کے نام سے مشہور ایک اور عسکریت پسند نے داعش کے ساتھ اختلافات پیدا کیے اور معاذ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا،جو حاجی صاحب کے گروہ سے منسلک تھا ۔
یہ بھی پڑھیں:داعش کی پاکستان میں ہزاروں افراد کی بھرتی کا انکشاف
بعد میں کامران عرف موٹا کو اپنے 6-7 عسکریت پسندوں کے ساتھ وادھ سے نکال دیا گیا۔ اسی وجہ سے داعش کے کامران عرف موٹا اور حاجی گروپ کے معاذ کے راستے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔
سی ٹی ڈی دستاویزات میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کی شمالی وزیرستان ایجنسی ،میران شاہ اور وادھ بلوچستان میں یہ کہہ کر "برین واش" کی جاتی تھی کہ 'یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امریکا کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور ان کے خلاف لڑنا جہاد ہے'.
مالاکنڈ سے کراچی
1991 میں مالاکنڈ ایجنسی میں پیدا ہونے والا عبداللہ عرف کونا، 2009 میں کراچی آیا اور اُس نے چوکیدار اور مزدور کی حیثیت سے مومن آباد اور اورنگی ٹاؤن میں موجود مختلف فیکٹریوں میں کام کیا۔
اُس نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہیں کی اور وہ بھنگ کاعادی تھا، تاہم 2008 میں اس کی زندگی میں اُس وقت تبدیلی آئی جب وہ اپنے کزن رب نواز سے ملا، جو تحریکِ طالبان سوات (ٹی ٹی ایس) سے منسلک تھا۔
اس کے بعد وہ ضلع مالاکنڈ میں بٹ خیلہ آگیا، جہاں اس نے ٹی ٹی ایس کیمپ میں تربیت حاصل کی ۔ 2009 میں سیکیورٹی فورسز نے اس کیمپ پر حملہ کیا، لیکن عسکریت پسند بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی سال عبداللہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا، جس کے دوران 2 عسکریت پسند رضوان اور عمر مارے گئے۔
مزید جانیں:حکومت کا داعش کی موجودگی سے بدستور انکار؟
ایک اور مقابلے میں ایک عسکریت پسند اور 3 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ سیکورٹی فورسز نے بعد ازاں رب نواز کو فیاض کے ساتھ ہلاک کیا جب وہ بٹ خیلہ کے ظفر پارک میں موجود تھے۔
سیکورٹی فورسز نے عبداللہ کے گھر پر بھی چھاپہ مارا، لیکن وہ اس وقت اپنے گھر پر موجود نہیں تھا۔ بعد میں اس نے اپنا آبائی شہر چھوڑدیا اور خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگیا۔
یہ خبر 7 اپریل 2016 کے ڈان اخبار سے لی گئی ہے
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔