پاناما لیکس: ایف بی آر کا تحقیقات کا فیصلہ
اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ترجمان ایف بی آر ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہ ٹھوس معلومات کی بنیاد پر انکوائری ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پاناما لیکس کے انکشافات کی چھان بین کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، جن افراد نے اپنے گوشواروں میں آف شور کمپنیوں اور اثاثہ جات ظاہر نہیں کیے ان کے خلاف تحقیقات ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس مسلم لیگ کیلئے پریشان کن نہیں
خیال رہے کہ پاناما لیکس کے ذریعے جن افراد کی معلومات افشاء ہوئیں، ان میں کم از کم 200 پاکستانی بھی شامل ہیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کا خاندان، مرحومہ بینظیر بھٹو، رحمٰن ملک اور دیگر مشہور پاکستانی سیاستدان اور بزنس مین سرِ فہرست ہیں۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے شائع کی گئی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفدر اور صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
ڈیٹا میں مریم کو برٹش ورجن آئس لینڈ میں موجود آف شور کمپنیوں نیسکول لمیٹڈ (1993) اور نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ (1994) کا مالک ظاہر کیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی جے کی جاری دستاویزات میں نیلسن انٹرپرائزز کا پتہ جدہ میں سرور پیلس بتایا گیا۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے اثاثوں کی تفصیلات ماضی کے برعکس اس بار ویب سائیٹ پر جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید جانیں: ’آف شور‘ اکاؤنٹس کیا ہیں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات اس سال صرف گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے جاری کی جائیں گی۔
اس سے قبل یہ تمام تفصیلات ویب سائیٹ پر جاری کی جاتی تھیں جو عام افراد کے جائزہ کے لیے دستیاب ہوتی تھیں۔
آف شور(بیرون ملک) بینک اکاؤنٹس کسی دوسرے ملک میں عام طور پر ٹیکسوں اور مالی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات
کوئی بھی انفرادی شخص یا کمپنی اس مقصد کے لیے اکثر و بیشتر شیل (غیر فعال) کمپنیوں کا استعمال کرتی ہے جن کے ذریعے ملکیت اور فنڈز سے متعلق معلومات کو چھپایا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حسنین ابراہیم کاظمی کے مطابق آف شور کمپنیاں بنانا ایک معمول کی بات ہے اور مختلف بزنس مین آف شور کمپنیاں اسی لیے قائم کرتے ہیں تاکہ وہ دنیا کے کچھ مخصوص حصوں میں ٹیکس کی وصولی سے بچ سکیں۔
مثال کے طور پر خیبر پختونخواہ میں ہتر اور بلوچستان میں گوادر ٹیکس فری زون بنائے گئے ہیں جوغیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ کسی جگہ کو 'ٹیکس فری' کرنا بزنس بڑھانے کے لیے ہوتا ہے. برطانوی حکومت نے ورجن آئس لینڈ کو ٹیکس فری کہا ہے تاکہ یہاں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکے.
عالمی قوانین کے ماہر، احمر بلال صوفی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آف شور کمپنی رجسٹر کرنا جرم نہیں ہے بلکہ یہ ایک قانونی طریقہ ہے، جبکہ مسئلہ وہاں آتا ہے کہ یہ کمپنیاں کیسے کام کرتی ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں