'پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی ہندوستان سے بہتر'
نئی دہلی: ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے چوری کے خدشات میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی اقدامات پاکستان کے مقابلے میں کمزور ہیں۔
ہاریارڈ کینڈی اسکول کی رپورٹ "جوہری دہشت گردی سے بچاؤ: مسلسل بہتری یا خطرناک زوال؟"، میں کہا گیا کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آیا ہندوستان جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے ہے یا نہیں، تاہم ہندوستان کے جوہری ہتھیاروں کو پاکستان سے کم خطرہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ "مجموعی طور پر پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کی چوری کے حوالے سے زیادہ خطرہ لاحق ہیں، جس کی صلاحیت دنیا کے مختلف دہشت گرد گروپ رکھتے ہیں، خطرے والے عوامل کے طور پر بڑے پیمانے پر کرپشن اور انتہاپسندانہ ہمدردی" کا ماحول بھی قابل ذکر ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکومت کے خاتمے کے امکان کی وجہ سے " انتہا پسندوں کی جانب سے قبضے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا"۔
رپورٹ میں ہندوستان کے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے خطرات کے ابھرنے اور کم ہونے کا واضح رجحان موجود نہیں ہے، تاہم اس میں پاکستان کی جانب سے ٹیکٹکل جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کے حوالے سے رجحان کو واضح کیا گیا ہے۔
طاقتور جوہری سیکیورٹی؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کو بڑھایا ہے" اس حوالے سے جوہری سلامتی، تربیت، سامان کے انتظامات، ایٹمی مواد کی آکاؤنٹنگ اور کنٹرول کے لیے عملے کی ضروری اسکریننگ کے طریقوں کا ذکر کیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹریٹجک پلانننگ ڈویژن کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اسٹاک اور سہولیات کی حفاظت کے لیے 25،000 اہلکاروں کی تعیناتی، وسیع رکاوٹیں اور پتہ لگانے کے نظام کے ساتھ سائٹس کا سامان، جوہری ہتھیاروں کے اجزاء میں سے علیحدہ اسٹوریج، غیر متعلقہ افراد کے استعمال سے روکنے کے لیے تالے کے ساتھ ہتھیاروں کے سازوسامان، جوہری سلامتی بہتر بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ وسیع تعاون کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں منفی رجحانات کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں : امریکا کی جانب سے عدم اعتماد کا اظہار- ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کے نتیجے میں مقامات کی تعداد میں ایک ' ممکنہ ' اضافے کو شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان میں القاعدہ کے برصغیر گروپ کی جانب سے 2014 میں نیوی کے ایک بحری جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا حوالہ بھی دیا گیا، جو کہ ممکنہ طور پر امریکا کے بحری جہاز کے خلاف استعمال کیا جانا تھا۔
رپورٹ نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیان کو شامل کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ "یہ لوگ اندرونی مدد کے علاوہ سیکیورٹی کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے تھے"۔
واضح رہے کہ پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے امریکی میڈیا میں آنے والی منفی رپورٹس کے باوجود "امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے چیئرمین جوائنٹ آف چیف اسٹاف نے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات پر اعتماد اظہار کیا"۔
مذکورہ رپورٹ میں 2016 کو جوہری سیکیورٹی کے حوالے سے اہم سال قرار دیا گیا ہے، جس کے مطابق شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور دیگر میں ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے آئندہ آنے والے سالوں میں ان کے حوالے سے خطرات میں تبدیلی آجائے گی۔
اس میں مزید کہا گیا کہ آنے والے نئے امریکی صدر بھی جوہری سیکیورٹی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔