پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟ سوچ لیں
اگر آپ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سوچ رہے ہیں اور خاص طور پر اگر وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے تو شاید ہی آپ کو بطور پی ایچ ڈی طالب علم اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا علم ہو۔
تعلیمی ڈگریوں کے اشتہارات بھی کمرشلزم کی چمک دھمک سے ایسے متاثر ہوئے ہیں، کہ بالکل نئے موبائل فون کے اشتہارات جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ 'تعلیمی اشتہارات' ہر تعلیمی شعبے میں ہر سطح کی تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔
جلدی کریں اور اس ''خصوصی آفر'' کا فائدہ اٹھائیں۔
پی ایچ ڈی ڈگریوں کے اشتہارات بھی اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ کہیں بھی ''ممتاز/نمایاں'' فیکلٹی ممبران اور مخصوص ریسرچ لیبارٹریز کا ذکر نہیں ہوتا جو طالب علم کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین سالوں میں اپنی نوکری کو الوداع کہے اور غربت اور غیر یقینی سے بھری طالبعلمی کی زندگی میں دوبارہ قدم رکھے۔
اس کے بجائے اشتہارات میں ان شعبوں کی طویل فہرست نمایاں ہوتی ہے جن میں پی ایچ ڈی کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
کچھ یونیورسٹیاں تو قابل پی ایچ ڈی امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بھی بلا رہی ہیں تاکہ ان کے قابلِ داخلہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکے۔
پڑھیے: یونیورسٹی رینکنگ: والدین کو کیا دیکھنا چاہیے؟
میں طالبعلموں پر زور دیتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ وہ کئی سال کم آمدنی یا کبھی کبھی بغیر آمدنی تعلیم حاصل کرتے رہنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیں، اس موقع کو یونیورسٹیوں کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کریں۔
شہری علاقوں میں بھی جہاں شرح خواندگی دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے، عام لوگ مشکل سے ہی کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس نے پی ایچ ڈی سطح تک تعلیم و تحقیق کی ہو۔
گلی کے ہر کونے پر آپ کو کریانہ کی دکان، ایک مسجد اور ایک کلینک مل جائے گا، مگر اسی عوامی جگہ پر کسی پی ایچ ڈی یافتہ شخص کو تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے پی ایچ ڈی ڈگری میں داخلے کے خواہشمند افراد کو تھوڑی پریشانی ہوسکتی ہے، کیونکہ ان کی درست رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انہیں یونیورسٹی اور ریسرچ سپروائزنگ کمیٹی سے کیا توقع رکھنی چاہیے۔
پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی ڈگری میں داخلہ لینے سے پہلے آپ کو ادارے کے بارے میں تھوڑا اور اپنے بارے میں بہت زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ آپ میں مستقل مزاجی کا ہونا بہت ضروری ہے۔
پی ایچ ڈی سطح کی ریسرچ کوئی کھیل نہیں ہے۔ سالوں تک آپ کو تنہا محنت کر کے ایسے جوابات تلاش کرنے ہوتے ہیں جن کا ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ غیر یقینی اس کھیل کا دوسرا نام ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو آپ کے سوالات کا جواب پہلے سال میں ہی مل جائے، یا پھر زیادہ تر لوگوں کی طرح 5 یا اس سے زائد سال لگ جائیں گے۔ لیکن اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ آپ اسے کبھی مکمل کر سکیں گے یا نہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ آپ کو کتنی زیادہ (یا کم) ریسرچ فنڈنگ ملے گی، یہ بطور فرد آپ کو سپورٹ کرنے کے لیے ناکافی ہوگی۔ اگر آپ کی فیملی اور بچے ہیں تو پی ایچ ڈی کا بیڑہ اٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں۔ تعلیم کے دوران مالی دباؤ آپ کی صحت اور رشتوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
آپ کو یہ بھی جاننا ہوگا کہ آیا آپ ایک اچھے لکھاری ہیں یا نہیں۔ پی ایچ ڈی مقالے ایک تحریری دستاویز ہوتے ہیں۔ ریسرچ کو دستاویزی شکل دینے کی صلاحیت کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
مزید یہ کہ تعلیمی اندازِ تحریر دوسری قسم کی تحریروں سے بہت مختلف ہوتا ہے، جس میں سخت اصولوں اور مخصوص اسٹائل کو مدِنظر رکھنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حوالہ جات کو یا تو امریکن سائیکولاجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) یا پھر ماڈرن لینگوئیج ایسوسی ایشن (ایم ایل اے) اسٹائل سے لکھنا ہوتا ہے۔ تعلیمی حوالہ جات اور دستاویز کی تحریر کے لیے ہر تعلیمی شعبے کے اپنے اپنے مخصوص اسٹائل ہیں۔
چونکہ آپ نے ماسٹرز سطح کی تعلیم مکمل کی ہوگی، اس لیے پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے آپ سے توقع کی جائے گی کہ آپ تعلیمی اندازِ تحریر میں ماہر ہوں۔
اگر آپ کی ماسٹرز سطح کی ریسرچ کسی نامور تحقیقی جرنل میں شائع ہوچکی ہے تو پھر آپ کی تعلیمی قابلیت پر کسی کو شک نہیں۔ پر اگر نہیں، تو کیا آپ نے اپنا پیپر کسی جرنل میں جمع کروایا ہے یا اس کے بارے میں سوچا ہے؟
اگر نہیں، تو میں مشورہ دوں گا کہ ایک سال تک اپنی مکمل ریسرچ کو ریسرچ جرنلز میں شائع کروانے کی کوشش کرتے رہیں۔ یہ ایک ہی تجربہ آپ میں پی ایچ ڈی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت کو جاننے میں مددگار ثابت ہوگا۔
جانیے: اعلیٰ تعلیم ایک منافع بخش کاروبار
وہ درخواست گزار جن کی ریسرچ پہلے سے ہی جرنلز میں شائع ہوچکی ہوتی ہے، سب سے زیادہ خاص ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے پاس بلانے کے لیے یونیورسٹیاں کمر کس لیتی ہیں اور ایسے درخواست گزاروں کو بے تحاشہ فنڈنگ اور دوسری مراعات کی پیشکش بھی کرتی ہیں۔
آخر میں یہ کہ درخواست جمع کرواتے وقت آپ کے پاس بہترین دلائل پر مبنی ریسرچ پروپوزل ضرور ہو۔
پی ایچ ڈی سطح کے داخلے بیچلرز کی طرح نہیں ہوتے جہاں کالج کا سرٹیفکیٹ دکھا کر داخلہ مل جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپ ایک مدلل ریسرچ پروپوزل تیار کریں، جس میں آپ یہ بات تفصیلاً واضح کریں کہ آپ کیا ریسرچ کرنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ خالی ہاتھ ہیں اور دکھانے کو کچھ نہیں ہے تو یا تو درخواستِ داخلہ مسترد ہونے کے لیے تیار رہیں، یا پھر پانچ سال بعد بھی خالی ہاتھ نکلنے کے لیے تیار رہیں۔
آپ کو یونیورسٹی سے کیا توقع کرنی چاہیے
بطور پی ایچ ڈی طالب علم آپ ریسرچ فنڈنگ، تعلیمی مدد، رہنمائی، ریسرچ کے وسائل، اسکالرشپ، اور آزاد اور بلاخوف ریسرچ کے لیے بہتر ماحول کے حقدار ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں شاید ہی ایسی یونیورسٹیاں ہوں جو پی ایچ ڈی طالب علموں کو ذرہ برابر بھی وہ سہولیات فراہم کرتی ہوں جو انہیں فراہم کی جانی چاہیئں۔
داخلے کی درخواست دینے سے پہلے آپ کو آپ کے متعلقہ شعبے کے دوسرے ریسرچرز کے بارے میں بھی جان لینا ضروری ہے کہ وہ کیا کام کرچکے ہیں۔ ایسے پی ایچ ڈی سپروائزر کے ہونے کا کوئی جواز نہیں جو اس دائرہ تحقیق میں کام ہی نہیں کرتا جس میں آپ اسپیشلائز کرنا چاہتے ہیں۔
بلکہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کے بجائے لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ آپ کو ایسے پروفیسر کی تلاش کرنی چاہیے جن کے کام کو آپ نے پڑھا ہوا ہے (اور سمجھ بھی سکے ہوں) اور جن کے پسندیدہ ریسرچ موضوعات آپ کے لیے اطمینان بخش ہوں، کیونکہ اگلے 5 سے 10 سال تک ان کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔
آپ کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دیگر کون سے اساتذہ اس شعبے میں پڑھاتے ہیں، یا ایسے فیکلٹی ممبر جو ۤآپ کی سپروائزری کمیٹی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ کو کم از کم تین ایسے اساتذہ کی ضرورت ہوگی جن کے پسندیدہ ریسرچ موضوعات آپ کے پروپوزل سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اس طرح سپروائزری کمیٹی آپ کی دانشورانہ صلاحیت بہتر کرنے میں مدد فراہم کرے گی جس سے آپ اپنی ریسرچ بہتر انداز میں کر سکیں گے۔
آپ کا تھیسز سپروائزر قابل اور آپ کی دسترس میں ہونا چاہیے۔ آپ اپنے سپروائزر کی قابلیت کو بین الاقوامی جرنلز میں ان کی شائع ریسرچ پڑھ کر جان سکتے ہیں۔
گوگل اسکالر سے شروع کریں اور دیکھیں کہ آیا آپ جنہیں سپروائزر بنانا چاہتے ہیں، ان کی ریسرچز معیاری جرنلز میں شائع ہوچکی ہیں یا نہیں، اور ان جرنلز کا امپیکٹ فیکٹر کتنا ہے۔
ان اساتذہ سے دور رہیں جن کی ریسرچ ایسے جرنلز میں شائع ہوتی ہے جن کا امپیکٹ فیکٹر یا اس کے متوازی کوئی معیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان اساتذہ سے بھی بچ کر رہیں جو ایک ہی ریسرچ کو تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ مختلف جرنلز میں شائع کرواتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: یونیورسٹیز کو کیسے پرکھا جائے
سپروائزر کو آپ کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ دستیاب ہونا ہوگا۔ بہتر ہے کہ آپ ایسے اساتذہ کو اپنا سپروائزر منتخب نہ کریں جو کیمپس میں بہت کم آتے ہیں، گرمیوں کی طویل چھٹیاں گزارنے پردیس چلے جاتے ہیں، باقاعدگی کے ساتھ ملاقات نہیں کر پاتے (کم از کم مہینے میں ایک بار یا اس سے زائد)، آپ کے جمع کروائے گئے کام پر بر وقت رائے نہیں دیتے اور آپ کی دانشورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے میں حصے دار نہیں دیتے۔
اپنے مجوزہ سپروائزر کے پاس پہلے سے موجود پی ایچ ڈی طالب علموں سے بات چیت کر کے یہ تمام باتیں جانی جاسکتی ہیں۔ بلکہ آپ کو اس وقت تک پی ایچ ڈی سپروائزر منتخب نہیں کرنا چاہیے جب تک آپ ان کے فارغ التحصیل طالب علموں سے ان کے بارے میں گفتگو نہ کرلیں۔
بطور درخواست گذار اپ کو یونیورسٹی سے ان کے طریقہ کار، وسائل اور مضبوط حصوں کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔
یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی پالیسی کی ایک نقل آپ کو بھی دے جس میں تمام افراد کے کرداروں، ذمہ داریوں، اور پابندیوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ یونیورسٹی کو چاہیے کہ آپ کی پی ایچ ڈی کو جاری رکھنے میں آپ کی مدد کے لیے آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر بہتر مالی پیکیجز کی بھی پیشکش کرے۔
مالی مدد کے معاہدے کو تحریری ہونا چاہیے جس میں رقوم کے بارے میں مشورے، ان کی ادائیگی کا طریقہء کار اور شیڈول وغیرہ شامل ہوں، بلکہ مالی پیکج کی گارنٹی تحریری طور پر خط کی صورت میں دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ آپ کو داخلے کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے قبل انہیں کسی وکیل کو دکھانا چاہیے۔
یونیورسٹی کو آپ کے لیے ضروری لیبارٹریز اور وسائل ہر صورت مہیا کرنا ہوں گے تاکہ آپ اپنے کئی سال لیب کے ساز و سامان کے انتظار میں ہی نہ برباد کر دیں۔ یونیورسٹی جریدوں تک رسائی، اور کتابوں اور ریسرچ کے لیے ضروری وسائل کو لازمی ممکن بنائے۔ انٹرویو کے دوران آپ کے لیے یہ تمام باتیں پوچھنا ضروری ہے۔
زیادہ تر یونیورسٹیوں کے تعلیمی ماحول کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پی ایچ ڈی سپروائزر کسی ایسے ڈکٹیٹر کی طرح پیش آتے ہیں جو تعلیمی جاگیر کا اکیلا مالک ہو۔
کبھی آپ پاکستان کے کسی کیمپس کا دورہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ پی ایچ ڈی سپروائزر اپنے طالب علموں سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے ان کے غلام ہوں۔
اس استحصال کو ختم ہونا چاہیے۔ یونیورسٹیوں کو حقوق کا ایک چارٹر معاہدہ ترتیب دینا چاہیے جس پر طالب علم اور سپروائزر دستخط کریں۔
مثال کے طور پر رائرسن یونیورسٹی، جہاں میں پڑھاتا ہوں، کو ایسے گریجوئیٹ طالب علموں، پروفیسرز، اور سپروائزری کمیٹیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔ ان کے تمام حقوق اور پابندیاں یونیورسٹی کی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔
آپ اپنے داخلہ انٹرویو کو ان کے انٹرویو میں تبدیل کرکے خود انٹرویو کرنے والے کا انٹرویو لیں۔
خود کو سوالات سے لیس کرکے کمربستہ ہوکر معلومات حاصل کرنے میں لگ جائیں۔
اگر آپ اپنے میزبانوں کو سوالات سے پریشان ہوتا پائیں اس کا مطلب ہے کہ یا تو وہ آپ کو اپنا طالبعلم بنانے کے لیے تیار نہیں، یا اس پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے سنجیدہ نہیں جو وہ بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں