• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

وسیم آفتاب اور افتخار عالم بھی ایم کیو ایم چھوڑ گئے

شائع March 10, 2016
وسیم آفتاب اور افتخار عالم ایم کیو ایم سے الگ ہو گئے — فوٹو: ڈان نیوز
وسیم آفتاب اور افتخار عالم ایم کیو ایم سے الگ ہو گئے — فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مزید دو اراکین وسیم آفتاب اور افتخار احمد پارٹی چھوڑ کر سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی 'نئی پارٹی' میں شامل ہوگئے۔

وسیم آفتاب احمد ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج اور رابطہ کمیٹی کے رکن رہے ہیں جبکہ افتخار عالم موجودہ رکن سندھ اسمبلی ہیں اور وہ 2013 کے عام انتخابات میں کراچی کے حلقہ 106 عزیز آباد سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، عزیز آباد میں ایم کیو ایم کا مرکز نائن زیرو بھی واقع ہے۔

وسیم آفتاب کا کہنا تھا کہ وہ 1987 سے ایم کیو ایم سے وابستہ رہے، ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے لیے تحریک میں شامل ہوئے۔

الطاف حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے ہمارا رہنماء ہمیں مشکلات سے نکالے گا، ایم کیو ایم کے عہدے ملتے رہے اور سچ جھوٹ کا پتا چلتا رہا، رابطہ کمیٹی میں آئے تو پتا چلا کے خرابی ہم میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ "را" کا الزام جھوٹ نہیں ہے، لیکن اس کو ثابت کرنا مشکل ہوگا۔

وسیم آفتاب — فوٹو : ڈان نیوز
وسیم آفتاب — فوٹو : ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا، اس کے بعد ہم پیپلز پارٹی کے دوست بن سکے نہ دشمن۔

وسیم آفتاب نے بتایا کہ صورتحال ایسی ہے کہ ایم کیو ایم کا کارکن جہاں کھڑا ہو جائے عام آدمی اس سے 2 فٹ دور ہو جاتا ہے، ایم کیو ایم کا نام آتے ہی لوگوں کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس شخص کو لاشیں چاہئیں اسے آپ کی ذراسی بھی فکر نہیں،ایم کیو ایم میں کارکنان کو ٹشو پیپر نہیں ٹوائلٹ پیپر سمجھا جاتا ہے، ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تو بہت سے رازوں سے پردہ اٹھتا گیا،

مصطفیٰ کمال کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے جمع ہونے کا مقصد کراچی کو خونریزی سے بچانا ہے، اب اصلاح کی گنجائش ہے نہ وقت۔

انہوں نے ایم کیو ایم کے کارکنان کو لاعلم اور معصوم قرار دیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے دیگر افراد کو بھی اپنی نئی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔

ایک سوال کے جواب میں وسیم نے کہا کہ لندن میں الطاف حسین کی گرفتاری سب سے بڑی خبر تھی، کراچی میں بڑی مشکل سے دھرنا دیا گیا، جس سے ایم کیو ایم کی مضبوط تنظیم کی اصل حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔

اس موقع میں افتخار عالم نے متحدہ قومی موومنٹ سے الگ ہونے اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔

افتخار عالم کا کہنا تھا کہ ایک دن قبل ایم کیو ایم کی رابطہ مہم میں الطاف حسین کے حوالے سے جھوٹی تعریفیں کرنی پڑی۔

افتخار عالم — فوٹو : ڈان نیوز
افتخار عالم — فوٹو : ڈان نیوز

الطاف حسین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ذاتی تسکین کے لیے فیصلے کیے، پاکستان تورنے کی باتیں ہوتی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ 28 سال سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے، خوف زدہ تھے کہ یہاں سے کہاں جہاں جائیں۔

افتخار عالم نے کہا کہ میں یونٹ، سیکٹر اور نچلی سطح کا ذمہ دار رہا، سٹی گورنمنٹ میں ناظم رہا، اس لیے بہت کچھ سے واقف ہوں۔

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کو لاشیں درکار ہیں، ایک بار اجلاس میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کیوں نہیں مرتے۔

افتخار عالم نے ایم کیو ایم کے دیگر ارکان کوکہا کہ اس مقام کو چھوڑیں، اس جماعت میں آئیں یا کسی بھی اور جگہ جائیں لیکن اپنی جان بچائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے ذاتی انا کو کبھی ختم نہیں کیا، وہ نعروں پر بھی خوش نہیں ہوتی اور خاموش رہنے پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔

اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد نشستیں حاصل کرنا نہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی میں شروع کی گئی صفائی مہم پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ شہریوں کو مبارک ہو ہمارے آنے پر لوگوں کو 10 سال بعد صفائی کا خیال آ گیا۔

قبل ازیں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا تھا کہ ان کی پریس کانفرنس کا موضوع کیا ہے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 3 مارچ کو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایم کیو ایم قائد الطاف حسین پر ہندوستانی خفیہ ادارے 'را' کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا جبکہ ان کے شراب کے نشے میں خطاب کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔

اسی پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال نے نئی جماعت بنانے کا بھی اعلان کیا، تاہم اس کا کوئی نام نہیں رکھا گیا اور پاکستانی پرچم کو پارٹی کا جھنڈا قرار دیا گیا تھا۔

مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس : 'ہم محب وطن لوگ تھے، 'را' کے ایجنٹ ہوگئے'

3 دن پہلے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے ایک اور پریس کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا، جس میں کوئی ایجنڈا نہیں بتایا گیا تھا، اس پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے سینیئر کارکن اور سندھ اسمبلی کے رکن ڈاکٹر صغیر احمد نے الطاف حسین سے علیحدگی اور مصطفیٰ کمال کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹرصغیر احمد کون ہیں؟

دوسری جانب دو روز پہلے انیس قائم خانی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جلد بتائیں گے کہ قافلے میں کون کون شامل ہے ۔

'نئی پارٹی' بنانے والے اِن رہنماؤں نے اپنی جماعت کا بڑا مقصد ملک میں صدارتی نظامِ حکومت اور مقامی حکومتوں کے تحت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی بتایا۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کی جانب سے الطاف حسین پر الزامات مسترد کو مسترد کر دیا تھا جبکہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ندیم نصرت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے گزارش ہے کہ 'کسی' پر ہاتھ رکھنے کے بجائے الطاف حسین سے بات کی جائے۔

'نئی پارٹی' کے اراکین

مصطفی کمال 2005 سے 2009 تک متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے نامزد ناظم رہے، ایم کیو ایم نے انھیں 2011 میں سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا تاہم اپریل 2014 میں وہ سینیٹ سے مستعفی ہو گئے اور اس کے بعد سے وہ پارٹی میں مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے، وطن واپسی سے قبل تک وہ دبئی میں پاکستان کی ایک بہت بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔

انیس قائم خانی متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر رہ چکے ہیں، 2013 کے بعد سے وہ پارٹی میں غیر فعال شمار کیے جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر صغیر احمد زمانہ طالبعلمی میں ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) سے منسلک رہے، وہ تین مرتبہ یعنی 2005، 2008 اور 2013 میں سندھ اسمبلی کے رکن بنے جبکہ وہ صوبائی وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024