• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

عام عورت، خاص عورت

شائع March 8, 2016
یہ دن مجھ جیسی عام عورتوں کے لیے نہیں بلکہ اُن خاص عورتوں کے لیے مخصوص ہے جنہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ — اے ایف پی/فائل
یہ دن مجھ جیسی عام عورتوں کے لیے نہیں بلکہ اُن خاص عورتوں کے لیے مخصوص ہے جنہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ — اے ایف پی/فائل

میں ایک عام عورت ہوں، جیسی میرے دیس میں رہنے والی بیشتر عورتیں ہیں۔ ہمہ وقت مصروف، اپنی ذات، خاندان، رشتوں اور پہچان کی تگ و دو میں مگن اپنی زندگی سے کسی قدر مطمئن، لیکن نہ جانے کیوں جب جب مارچ کا مہینہ ''عورتوں کے عالمی دن'' کے حوالے سے میرے شعور کی کنڈی کھٹکھٹاتا ہے تو مجھے مضحمل کردیتا ہے۔

نہ جانے مجھے یہ احساس کیوں ہوتا ہے کہ یہ دن مجھ جیسی عام عورتوں کے لیے نہیں بلکہ ان خاص عورتوں کے لیے مخصوص ہے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔

میں زندگی میں کچھ ایسا خاص کر نہ سکی۔ بچپن میں جب میرے ہم عمر کزن لڑکے اچھل کود اور بھاگ دوڑ کے کھیل کھیلتے اور میں ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی تو اکثر سننے کو ملتا ''لڑکیوں والے کھیل کھیلو، آرام سے بیٹھ کر ایک طرف''۔ سو احتجاجاً میں اور میری ہم جولیاں گڑیوں کی شادیاں رچانے اور گڈوں کی گت بنانے کے منصوبے بننے لگتیں اور یوں جسمانی و ذہنی کسرت کے قیمتی لمحات، نفسیاتی الجھنوں اور تانوں بانوں کی نظر ہوجاتے۔

متوسط طبقے سے تعلق ہوتے ہوئے بھی ہمارے گھروں میں بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ کوئی ایسا امتیازی سلوک تو روا نہ تھا، سوائے اس کے کہ اونچا بولنے، جواب دینے اور جرح کرنے پر اکثر سرزنش ہوتی کہ ''ذرا ہولے، ابھی ماں باپ کے گھر یہ حال ہے تو دوسرے گھر جا کر تو اِن حرکتوں کی وجہ سے ناک کٹواؤ گی۔"

سو جہاں بھائی اور ابا کا تند مزاج اور ترش لہجہ مردانگی کی علامت اور عمر کا تقاضا سمجھ کر نظرانداز ہوتا وہاں ہمیں اکثر نرم خوئی، خوش مزاجی اور برداشت بڑھانے کے لیکچر سہنے پڑتے، لیکن اِس میں ایسا کچھ غلط بھی کیا تھا؟

بحیثیت عام عورت یہی اقدار میری بقاء کی ضمانت ٹھہرے اور آج یا کل میں اپنی بیٹی کو بھی شاید یہی گھٹّی پلاؤں گی۔

خیر میں تو ایک اوسط گھرانے کی عام لڑکی تھی سو جب ابّا نے بیٹی کے پڑھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے یونیورسٹی میں داخلہ دلایا تو سب سے زیادہ اعتراض گھر کی خواتین کو ہوا۔ دادی بولیں ''ارے! لڑکوں کے ساتھ پڑھائے گا۔'' امّی نے بھی خفگی کا اظہار کیا کہ کیا لڑکی کو نوکری کروانی ہے؟

تاہم اب تو وقت بدل گیا ہے عام وخاص سب لڑکیاں پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں، امتحانوں میں اوّل ہیں، اپنی زندگی، اپنے مستقبل کے حوالے سے با عزم اور پرامید نظر آتی ہیں لیکن ہیں وہ اب بھی عام سی لڑکیاں۔ سو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ موزوں بر آیا نہیں اور ترجیحات کے دھارے کا رخ بدلا نہیں۔

آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام سی لڑکی کے عام سے والدین اور خاندان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ بروقت اچھّے رشتے کا حصول ہے۔ سو تعلیم، ڈگری، کریئر، نوکری اور مستقبل کے تمام تر منصوبے ایک مناسب، برسرِروزگار بر کی آمد کے ساتھ تہہ و بالا ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی دانشمندی اور زمانہ فہمی کا تقاضا ہے۔

میں ایک عام لڑکی تھی سو مجھے بھی یہی بتایا گیا کہ میرا مقصدِ حیات، ایک گھر بنانا اسے سنوارنا اور چلانا ہونا چاہیے نا کہ کائنات کی سروری۔ سو میں نے اپنی حد کو پہچانا۔ تعلیم حاصل کی تو تبّرکاً۔ نوکری کی تو وقت گزاری کے لیے شوقیہ یا بڑھتی مہنگائی میں آسودہ زندگی کے حصول کے لیے مجبوراً۔

ہر اچھی، باکردار عورت کی طرح میں نے اپنے والدین اپنے خاندان اور اپنے معاشرے کی عزّت و ناموس کا طوق بچپن سے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھایا۔ اپنے پیروں میں رشتوں کی پازیبیں اور کلائیوں میں اعتبار کی چوڑیاں بڑے شوق سے سجائیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی زنجیریں اور پاؤں کی بیڑیاں بنتی گئیں۔

مجھے ہر قدم زمانے کا خوف غالب رہا اور ہر شوق، ہر جذبہ پر یہ کہہ کر قدغن لگائی گئی کہ جو کرنا اپنے گھر جا کے کرنا۔

آج میں اپنے گھربار کی ہوں سو ہر روز صبح سویرے بچوں کے لیے ناشتہ بناتے، اپنے کنبے کے سب افراد کو تیار کروا کے رخصت کرتے، بکھری بیڑی کی مانند گھر کو ہر روز نئے سرے سے سمیٹتے، رشتوں کو سنبھالتے، پکوان بناتے روٹھوں کو مناتے اور گھر، باہر، بینک، دفتر اور بازار کے ان گنت کام کرتے میں اکثر خود سے الجھ پڑتی ہوں تو کبھی کبھی مجھے گمان ہوتا ہے کہ کارخانہء روز و شب میرے ہی دم سے رواں دواں ہے۔

میرے ہی وجود سے رنگینیء کائنات اور بزمِ جہاں روشن ہے۔ میں عام نہیں بلکہ خاص ہوں، اور عورتوں کا عالمی دن مجھ جیسی ہی ان گنت بے نام و نشان عورتوں کا جشن ہے۔

ڈاکٹر ارم حفیظ

ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

irfan Mar 09, 2016 01:50am
بہت بجا فرمایا آپ نے ، آپ واقعی خاص ہیں اور آپ جیسی تمام عورتیں خاص ہیں؛ جن عورتوں کی آپ نے بات کی وہ خاص نہیں بلکہ میڈیا نے ان کو "نمائشی " بنا دیا ہے!!!!
Ijlal Hussain Mar 09, 2016 03:03am
very good, and appriciate your true feelings regarding urban n rural women.Two types of women your argument is valueable and it the fact ofour society..Stay blessed and keep going on
MOHAMMAMAD SALIM Mar 09, 2016 08:00am
ہر عورت عام نہیں ہوتی بلکہ خاص ہو تی ہے چاہے جس صورت میں ہو اور میں ان سب ماؤں کو خراج تحسین پیش کرتاہوں جن کے ہم بیٹے/بیٹیاں/اولاد ہیں۔
Zeeshan Mar 09, 2016 09:58am
Nice one!
Qamar Haider - Jeddah Mar 09, 2016 10:28am
Very well written, full of truth and based on 'ground reality'. Yes 'aik aam aurat' hi iss muashirey ki jaan hai. 'Agar Allah subhanahu ta'ala ko aam aadamioun se pyar na hota tou wo itney sarey aam aadami kyun banata.. Salamat rahyey baiti Iram hafeez. Duago
Qamar Haider - Jeddah Mar 09, 2016 12:34pm
Your article is based on ground reality. Very truely written. Agar Allah tabarak o ta'ala ko 'aam insanoun' se pyar naa hota tou itney sarey aam insaan kyun khalq kerta. Asl mein aam aadmi ya aam aurat hi tou khas aadmi aur khas aurat hai. Jeeti rahyey Iram Hafeez, Allah aapki fikr o bayaan ko mazeed jila bakhshey. Duago/QH
Shahmurtaza Mar 09, 2016 01:19pm
Hats off to you Erum H. Sahiba. Your style is appreciable so as your observation. All human beings are just equal in the God's eyes. woman is the source of life in this world. It must be admitted and practiced. hope your next beautiful essay will be soon with us....best of luck your brother,
Shahmurtaza Mar 09, 2016 01:20pm
niccccccccccceeeeeeeeeee
ALII Mar 09, 2016 03:46pm
LAST LINE KAMAAL HAIN

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024