• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm

غیرت کےنام پرقتل: عمرقید کی سزا برقرار رکھنےکاحکم

شائع March 5, 2016

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 2005 میں بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے باپ کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھنے کا حکم جاری کردیا، ملزم پر اپنی بیوی اور دیگر دو بیٹیوں کو زخمی کرنے کا بھی الزام ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے 2 مئی 2013 کو ملزم محمد زمان کو لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے 28 جولائی 2007 کو سنائی جانے والی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔

اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ ملزم پر جرم ثابت ہوچکا ہے تاہم اس حوالے سے کچھ معلومات کیس کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہیں کہ کن حالات کے باعث ملزم نے اپنی بیٹی کوثر کو قتل اور بیوی حسنہ بی بی اور دو بیٹیوں کہکشاں اور کومل کو زخمی کیا تھا۔

مذکورہ کیس ملزم کی چوتھی بیٹی کرن زمان نے مغل پورہ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کروایا تھا۔

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے گزشتہ سماعت میں ملزم کی جانب سے بے قصور ہونے کے حوالے سے دائر کی جانے والی پٹیشن کو نظر انداز کردیا تھا جبکہ سزا کو دوبارہ عمر قید سے سزائے موت میں تبدیل نہ کیے جانے کی تفصیلی وجوہات فراہم کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

اس مقصد کے لیے عدالت نے ایڈووکیٹ صدیق خان بلوچ کو ملزم کا وکیل مقرر کیا تھا۔

گزشتہ روز ایڈووکیٹ صدیق خان بلوچ نے عدالت میں دلائل دیئے کہ مذکورہ نوٹس قانون کے مطابق جاری نہیں کیا گیا اور ہائی کورٹ کی جانب سے ملزم کی سزا کو کم کرنا درست ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ اس روز والد اور اس کی بیوی، بیٹیوں کے درمیان کیا ہوا تھا، جس کے باعث والد نے بیٹی کو قتل کیا۔

اپیکس کورٹ کی جانب سے مذکورہ نوٹس گزشتہ سال 2 نومبر کو یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ نے مذکورہ واقعے کی وجوہات کو پُر اسرار سمجھتے ہوئے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا ہے، لیکن ایسی صورت میں جب کہ گواہان نے ٹرائل کورٹ اور پولیس کے سامنے قتل کا مقصد بیان کیا ہو، ایسا نہیں کیا جاسکتا۔

اس سے قبل اپیکس کمیٹی نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ اس کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ درخواست گزار کی سزا زخمی ہونے والے گواہان کی جانب سے فراہم کردہ ثبوتوں کے مطابق دی گئی ہے اور 'زمان کے قتل میں ملوث ہونے کے حوالے سے ہم استغاثہ کی جانب سے بیان کی گئی کہانی میں کوئی بھی غیر قانونی سقم نہیں دیکھ رہے'۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ زمان نے اپنی حقیقی بیٹی کو قتل کرکے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا۔

خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ میں مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران کرن نے گواہی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے والد 'ٹوکے' اور پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اس کی بہن کوثر کو قتل کیا اور فرار ہوگئے۔

قتل کا مقصد بیان کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ کوثر کی شادی ستمبر 2005 کو ہونے والی تھی اور اس کے لیے ان کے ایک عزیز نے لندن سے رقم بھیجی تھی جو ان کے والد حاصل کرنا چاہتے تھے۔

دوسری جانب زمان نے اپنے بیان میں الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی بیٹی نے ایک جرائم پیشہ شخص، ناصر مغل کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کررکھے تھے اور اس کی مدد ست اس نے ایک شخص کو تاوان کے لیے اغوا بھی کیا تھا۔ مغل کو بعد ازاں اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا تھا۔

ملزم کے مطابق اس کی بیٹی نے بعد ازاں راولپنڈی کے علاقے بخشی خانہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں تعینات ایک پولیس اہلکار سے تعلقات قائم کیے اور جس وقت اُس کے علم میں یہ بات آئی، اس کا خاندان لاہور منتقل ہوچکا تھا۔

زمان نے مزید بتایا کہ بعد ازاں اس کی اہلیہ نے اس سے پوچھے بغیر اپنی بیٹی کی شادی مذکورہ پولیس کانسٹیبل سے کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کردی تھی۔ کوثر کی پولیس کانسٹیبل سے شادی پر مغل کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا جس پر ان کے خاندان نے گھر تبدیل کرلیا۔

زمان نے دعویٰ کیا کہ اس کی بیٹی کو قتل کرنے اور دیگر کو زخمی کرنے والا مغل ہے، لیکن اس کی بیوی نے جان بوجھ کر اس پر الزام لگایا ہے کیونکہ وہ بچوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر والد کی جانب سے کی جانے والی روک ٹوک کو پسند نہیں کرتی تھی۔

یہ خبر 05 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025