پیمرا چیئرمین کو ٹی وی نشریات بندش کا اختیار
اسلام آباد: پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین ابصار عالم کو کسی بھی ٹی وی چینل کی نشریات محدود مدت کے لیے بند کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔
پیمرا بورڈ نے ابصار عالم کو یہ اختیار، اتھارٹی کی جانب سے ’ری انیکٹمنٹ پروگرام‘ کے حوالے سے بیوروکریسی کی رکاوٹوں کے باعث قواعد و ضوابط پر عملدرآمد میں ناکامی پر دیا۔
واضح رہے کہ ری انیکٹمنٹ پروگرامز میں حقیقی واقعات، خاص طور پر جرائم کے واقعات کو ڈرامائی انداز میں دکھایا جاتا ہے جبکہ اس میں جرم میں ملوث افراد کے انٹرویوزبھی شامل ہوتے ہیں۔
تاہم معروف سماجی کارکنوں نے پیمرا کے اس اقدام کو میڈیا کی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ آئی اے رحمٰن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے کیونکہ کسی ایک شخص کے ہاتھ میں فیصلہ دینے سے ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے ری انیکٹمنٹ پروگرامز میں بہتری کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معاملے پر میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔
پیمرا اتھارٹی کے حالیہ اجلاس کے دوران بورڈ اراکین کو بتایا گیا کہ کئی نوٹسز اور جرمانے کیے جانے کے باوجود، تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر جرائم پر مبنی پروگرامز نامناسب زبان اور انداز میں نشر کیے جارہے ہیں۔
اس کے بعد بورڈ اراکین نے چیئرمین کو ایسے چینلز کی نشریات بند کرنے کا اختیار دے دیا۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک شخص کو پورے الیکٹرونک میڈیا سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار دینے سے پیمرا کی شفافیت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
پیمرا بورڈ کے سابق مستعفی رکن ایڈووکیٹ اشرف گجر نے کہا کہ اگر ہر چیز کا فیصلہ چیئرمین کو کرنا ہے تو پھر بورڈ کی کوئی ضرورت نہیں، قانون کے مطابق کسی چینل کی نشریات بند کرنے کے فیصلے کا اختیار اتھارٹی کو ہے، صرف چیئرمین کو نہیں۔
دوسری جانب پیمرا نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ نامناسب مواد نشر کرنے والے ٹی وی چینلز پر جرمانے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے کیا گیا۔
پیمرا ترجمان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ری انیکٹمنٹ پروگرامز اور کرائم شوز کے نام پر پولیس اور ٹی وی کیمرے کے ہمراہ عوام کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ پیمرا قوانین، اعلیٰ عدالت کے احکامات اور معاشرے کی سماجی و ثقافتی اقدار کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
یہ خبر 3 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں