• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

تحفظِ خواتین بل کو قانونی حیثیت مل گئی

شائع February 29, 2016

لاہور: گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے تحفظ خواتین بل 2015 پر دستخط کردیئے جس کے بعد بل کو قانون کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔

اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

حکومت نے تحفظ خواتین قانون کو پنجاب میں مرحلہ وار نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا نفاذ سب سے پہلے ضلع ملتان میں ہوگا اور بعدازاں اسے دیگر اضلاع میں بھی نافذ کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں : پنجاب اسمبلی میں تحفظِ خواتین بل منظور

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں گذشتہ ہفتے متفقہ طور پر منظور کیے گئے بل کے تحت گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز قابل گرفت ہوں گے۔

بل کے تحت خواتین کی شکایات کے لیے ٹول فری نمبر قائم کیا جائے گا جبکہ ان کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی، پروٹیکشن آفیسر شکایت ملنے کے بعد متعلقہ شخص کو مطلع کرنے کا پابند ہوگا۔

پروٹیکشن آفیسر سے مزاحمت کرنے پر 6 ماہ تک سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ غلط شکایت یا اطلاع کرنے پر 3 ماہ کی سزا اور 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا۔

مزید پڑھیں : خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے اقدامات کا مطالبہ

بل میں خواتین پر تشدد کرنے پر جی پی ایس ٹریکر سسٹم کی تنصیب کو عدالت کے حکم سے مشروط کیا گیا ہے، جی پی ایس ٹریکر سسٹم والے کڑے کو بازو سے اتارنے یا اس سے زبردستی کرنے والوں کو 1 سال قید اور 50 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

بل کے تحت تشدد کا شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا، جبکہ عدالتی حکم پر مرد، تشدد کی شکار خاتون کو تمام اخراجات فراہم کرنے کا پابند ہوگا اور نان نفقہ ادا کرنے سے انکار پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے ادا کر سکے گی۔

بل کی ایک دلچسپ شق کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو 2 دن کے لیے گھر سے نکالا جا سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں : پنجاب: خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ

تشدد کے مرتکب افراد کو اسلحہ خریدنے اور اسلحہ لائسنس حاصل کرنے سے روکا جا سکے گا، جبکہ ان کے پاس موجود اسلحے کو بھی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی جاسکے گی۔

پنجاب بھر میں متاثرہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے، جبکہ شیلٹر ہومز میں متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی، جبکہ مصالحت کے لیے بھی سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔

جس خاتون پر تشدد کی درخواست موصول ہو اس کی تفصیلات کا باقاعدہ ڈیٹا بیس بھی مرتب کیا جائے گا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

solani Mar 01, 2016 01:58am
Very good job, and thanks for signing this bill.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024