• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:40am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:50am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:40am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:50am

کسی کے جانے سے کچھ نہیں ہوتا

شائع February 18, 2016 اپ ڈیٹ February 19, 2016
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدنان سمیع کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پاکستان میں موجود ہے، مگر کسی کے جانے سے کیا ہوتا ہے. — دیپک راہی/کری ایٹو کامنز
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدنان سمیع کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پاکستان میں موجود ہے، مگر کسی کے جانے سے کیا ہوتا ہے. — دیپک راہی/کری ایٹو کامنز

برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے غلام علی خان کی حیثیت ایک مضبوط ستون کی رہی۔ ان کا شمار مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ان گائیکوں میں ہوتا تھا، جن کی وجہ سے ان کا خاندان پٹیالہ قصور پہچانا جاتا ہے۔

ان کی گائیکی کے سامنے بڑے بڑے گویے پانی بھرتے تھے۔ شخصیت بارعب، آواز پاٹ دار، موسیقی کے اسرار و رموز سے کامل واقفیت اور سُر شناسی کے جوہر نے انہیں کلاسیکی موسیقی میں ایک طلسماتی مقام عطا کر دیا تھا، مگر وقت کا ستم دیکھیں، جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو استاد بڑے غلام علی خان کے ساتھ وہ ادب و آداب نہیں برتے گئے جس کے وہ حق دار تھے اور عادی بھی، تو انہوں نے پاکستان سے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا اور چلے بھی گئے۔

کلاسیکی موسیقی کے اتنے بڑے استاد کی ہجرت موسیقی کے منظرنامے پر یقیناً ایک بڑا واقعہ تھا۔ پاکستان میں شائقین موسیقیِ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب پاکستان کے ہاتھ موسیقی کے شعبے میں خالی رہ جائیں گے، مگر اب ہم اپنے اس ورثے پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں تو استاد بڑے غلام علی خان کے بعد بھی کیسے کیسے نادر ہنرمند کلاسیکی موسیقی کے منظر نامے پر ابھرے، جنہوں نے پاکستان کو موسیقی کے خزانے کے شعبے سے مالامال کر دیا۔ روشن آراء بیگم، استاد امانت علی خان، استاد سلامت علی خان، استاد نصرت فتح علی خان، مہدی حسن اور ایسے کئی نگینے، جن کی گائیکی سے پاکستانی کلاسیکی موسیقی کا منظرنامہ تادیرروشن رہے گا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کا یہ موڑ پھر اپنے آپ کو دوہرا رہا ہے۔ جب سے عدنان سمیع کے ہندوستانی شہری ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، پاکستانی شائقینِ موسیقی میں غم کے جذبات بھی ہیں تو غصے کے بھی، کیونکہ یہی وہ سماعتیں ہیں، جنہوں نے عدنان سمیع کو وہ مقام دیا تھا جس کی بدولت ان کی شناخت پوری دنیا میں ہوئی۔ عدنان سمیع نے اپنے میوزک کریئر کا آغاز 1986 میں کیا اور پہلی البم ”لائیو اِن کراچی“ ریلیز کی۔

عدنان سمیع کے پہلے البم میں ہی ہندوستان سے محبت کا پہلو موجود تھا۔ حیرت انگیز طور پر اس پہلے البم میں ان کی سنگت ہندوستانی سازندے ذاکر حسین کے ساتھ تھی۔ کچھ عرصے بعد معروف ہندوستانی گلوکارہ آشا بھوسلے کے نام کا سہارا لیا اور ان سے اپنے ایک مشہورِ زمانہ البم ”سرگم“ کے گانے گوائے، جبکہ پاکستان کے کئی معروف نام اس البم میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔

ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد اب وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کو کوئی بہت بڑی کامیابی مل گئی، تو اس کا فیصلہ وقت کر دے گا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عدنان سمیع خان کو مزید کامیابی کے حصول کا حق حاصل نہیں ہے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پذیرائی ہندوستان میں زیادہ ہے اور وہاں رہنا ان کے کریئر کی کامیابی کی ضمانت ہے، تو ٹھیک ہے، ان کی مرضی ہے، وہ اس حوالے سے اپنی رائے رکھتے ہیں. لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں موسیقاروں کی پذیرائی نہیں ہوتی، یا یہاں کام کرنے والے فنکار کامیاب نہیں ہیں.

عدنان سمیع کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پاکستان میں موجود ہے، مگر کسی کے جانے سے کیا ہوتا ہے، ایک سے ایک ہیرا پاکستانی موسیقی کو ورثے میں ملا ہے۔ حوالے کے لیے تازہ ترین گلوکار کا حوالہ دیکھ لیں، جس کی آواز میں ہنر کی چاندی دمکتی ہے۔

اس نوجوان کا نام سرمد قدیر ہے، پاکستان کے دارالخلافے اسلام آباد سے اس کا تعلق ہے۔ موسیقی کی جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نوجوان نے اپنا اسٹوڈیو بنایا، اس میں موسیقی ترتیب دی، اپنے گیتوں کے دیدہ زیب ویڈیوز بنائے، نصیبو لال اور شازیہ منظور جیسی ثقافت میں رچی بسی آوازوں کے ساتھ جدید موسیقی کا امتزاج بنایا۔ اس نوجوان نے کم عمری میں نہ صرف گائیکی کا باکمال مظاہرہ کیا، بلکہ اسے منفرد دھنیں کمپوز کرنے پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ اس کے ساتھ دیگر دھنوں کو بھی محسوس کرنا جانتا ہے۔

جس سرزمین پر استاد جھنڈے خان اور روشن آراء بیگم موجود ہوں، نور جہاں اور مہدی حسن، استاد نصرت فتح علی خان کی آوازوں کا خزانہ رہنمائی کے لیے موجود ہو، اسد امانت علی اور رفاقت علی کی آواز کے رنگ بکھرتے ہوں، جہاں میکال حسن جیسا نظرشناس موسیقار اور جاوید بشیر جیسی آواز گونج رہی ہو، وہاں کی موسیقی زوال پذیر نہیں ہوسکتی، وہاں کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔

استاد رئیس خان ویسے ہی ستار بجا رہے ہیں، عامر ذکی کا گٹار اسی طرح سُر تخلیق کر رہا ہے، استاد طافو کے طبلے کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی، شفقت علی خان کے پکے راگ سیدھے دل میں اسی طرح اتر رہے ہیں، استاد حسین بخش گلو اور عابدہ پروین کی کافیاں وہی تاثیر لیے موسیقی کے منظر نامے پر موجود ہیں، تو فرق کسے پڑا؟ انہیں جو چلے گئے، یا پھر وہ جو لمحہ موجود میں ہیں؟

پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کا منظر نامہ روشن ہے، راگ سے فیوژن تک ہم پوری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں، اگر کوئی ہم سا ہے، تو سامنے لے آئیں، یہ تو صرف نئی نسل کے ابھرتے ہوئے نوجوانوں ملازم حسین اور سرمد قدیر کو ہی سہہ لیں، تو بہت ہے، بڑے اساتذہ کا تو ابھی ہم تذکرہ ہی نہیں کر رہے۔ جن پر زوال کی علامتیں طاری تھیں، وہ چلے گئے، ہمارے فنکار تو کلاسیکی موسیقی کے درخشاں ستارے ہیں، جو پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں اور روح جن کی گائیکی سے منور ہے۔ یقین نہیں تو سن کر دیکھ لیجیے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (21) بند ہیں

وسیم رضا Feb 18, 2016 02:53pm
خرم کی بات سے پہلی دفعہ اختلاف۔ خیر جزوی اختلاف، خرم یار انگورکھٹے والی بات ہے۔ انڈین موسیقی کا ورثۃ بھی ہم سے کم نہیں۔ لتا جی، رفیع، کشور کمار، سونو نگم، شریا گوشال، ، اُدت نارائن، یہ لوگ کسی سے کم نہیں۔ باقی جہاں تک پاکستانی بچوں کی بات ہے تو اسٹارٹی وی کے چھوٹے استاد کے کوئی سے چار پانچ ایپی سوڈ دیکھ لو۔ رہ گئی بات عدنان کی تو اچھا ہوا چلا گیا۔ یہاں رہ کر اس نے کون سی توپ چلانی تھی۔ اس کے اندر کا خراب انسان ظاہر ہوگیا۔، ،
نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 18, 2016 04:04pm
ساتھ چلنے والے جب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں وقت تھم نہیں جاتا کوئی مر نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ !
Muhammad Yaseen Feb 18, 2016 05:14pm
بہت بہترین تحریر ہے مگر اس کا سارا جھکاؤ عدنان سمیع کےخلاف کرنا سمجھ نہیں آیا اور سرمد قدیر کو حد سے زیادہ سراہنے سے لگتا ہے کہ شاید آج تنقید جانبدار رہی ۔ ۔ عدنان سمیع کا پاکستان میں زوال بھی لکھ دیتے۔ مہندی حسن کےانتقال سے پہلے کی ان کے حالات بلکہ تمام بڑے ناموں کی حالات زندگی پر ذرا ذرا سی نظر ڈال دیتے تو اچھا ہوتا۔
solani Feb 18, 2016 07:25pm
Pakistan me fankaro ki itni izat nahi hai jitni baher mulko me. Ek tarha se acha hi hua (future) ko dekh ker kay Adnan chala gaya. Pakistan me reh ker bhi konsi ziyada izat milti.
Noman Alam Feb 18, 2016 10:58pm
خرم بھائی نے اس کالم کو لکھتے وقت جزبہ حب الوطنی قلم سے آگے رکھا ہے ، ہمیں بھی پاکستان سے محبت ہے ، عدنان بھائی کی بیگم میری اچھی دوست ہیں ، انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ عدنان کو پاکستان سے نفرت نہیں ہے ، لیکن وہ اپنے آپ کو پاکستانی ماحول میں محفوظ اور اپنے مستقبل کو بڑھتا ہوا محسوس نہیں کرتے ، اسی لئے انہوں نے دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری یعنی بالی وڈ کا انتخاب کیا ، باقی رہی بات شہریت کی ، تو کتنے پاکستانی ہیں جو امریکا ، یورپ اور کینیڈا کی شہریت کے لئے اپنی ولدیت تک تبدیل کرتے ہیں ، اپنے مذھب سے انحراف کرتے ہیں اور طرح طرح کے جھوٹ بول کر صرف ایک پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں ، انکی مجبوری اپنی جگہ لیکن جھوٹ کی بنیاد اپنی جگہ ، عدنان بھائی کبھی پاکستان سے اپنے دل کو دور نہیں لے کر جا سکتے ، اسی لئے ہمسایہ ملک میں اپنے آپکو بہتر محسوس کرتے ہوے چلے گئے ہیں ، عدنان کی آواز جہاں سے بھی آۓ ہمارے کانوں کو محظوظ کرتی رہے گی ، عدنان بھائی جہاں رہیں ، ہم ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی پہلے کرتے تھے
irfan Feb 19, 2016 01:03am
یہاں عدنان کو مرنے کے بعد زبردست پزیرائی ملے گی!!!! ابھی زندہ ہے اس لیے ہندوستان میں ٹھیک ہے کیوں کے وہ مرنے کے بعد زیادہ لفٹ نہیں کراتے!!!!!!!!!!!!!
رفعت Feb 19, 2016 03:54am
ہر بات سے متفق... لکن سرمد قدیر ؟..اصلی بے سرا ہے ...
محمد وارث Feb 19, 2016 09:30am
نہ صرف تجزیہ جانبدارانہ ہے بلکہ کئی ایک باتیں عامیانہ بلکہ سوقیانہ ہیں، مثال کے طور پر -"ہم پوری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں"۔ -"اگر کوئی ہم سا ہے، تو سامنے لے آئیں"۔ یہ دو جملے واقعی "کئی ایک کتابوں کے مصنف" کے ہیں یا بازار میں کھڑا کوئی ٹین ایجر کوئی "پھڑ" مار رہا ہے؟ -"یہ تو صرف نئی نسل کے ابھرتے ہوئے نوجوانوں ملازم حسین اور سرمد قدیر کو ہی سہہ لیں، تو بہت ہے۔" اس جملے میں "یہ" کی ضمیر کدھر ہے، کس کو مخاطب کر رہے ہیں؟ -"جن پر زوال کی علامتیں طاری تھیں، وہ چلے گئے"۔ چلے تو استاد بڑے غلام علی خان بھی گئے تھے، جن کے نامِ نامی سے اس تحریر کی ابتدا ہوئی ہے تو کیا اُن پر "زوال کی علامتیں طاری تھیں"۔ لاحول و لا قوۃ الا باللہ۔
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:02am
@وسیم رضا صاحب کے لیے۔ سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ تحریر کو توجہ سے پڑھنے کے لیے ، میں بالکل متفق ہوں آپ کی بات سے ، انڈینز کے ہاں موسیقی کی مضبوط روایات ہیں اور وہ اس میں بہت خزینے بھی رکھتے ہیں ، سب درست ہے ، مگر ہمارے ہاں بھی ایک طویل پس منظر ہے ، اگر ممکن ہو تو لاہور سے شایع ہونے والا سہہ ماہی فنون جو کہ ادبی رسالہ ہے ، جو احمد ندیم قاسمی صاحب نکالتے تھے ، اب ان کی صاحب زادی اور نواسے اس کو شایع کرتے ہیں ، اس میں شمارہ نمبر 137 جو حال ہی میں شایع ہوا ہے وہ دیکھ سکیں تو ضرور دیکھیں ، میں نے اس میں برصغیر میں موسیقی کے 300 سال پر تفصیل سے لکھا ہے ، امید ہے آپ کو پسند آئے گا ۔ اس کے لیے میری کتاب سُر مایا بھی دیکھ سکتے ہیں ، جو پاکستان کی موسیقی کے مختلف شعبوں کے مستند 60 شخصیات کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے ، باقی رہ گیا عدنان سمیع تو وہ مجھے بھی اچھا لگتا ہے ، بلکہ بہت اچھا ، خوش رہے ، جہاں بھی رہے ۔
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:05am
@Muhammad Yaseen صاحب کے لیے آپ کی توجہ کا شکریہ آپ کی بات سے متفق ہوں ، بالکل پاکستان میں فنکاروں کے ساتھ جو سلوک روارکھا گیا ہے ، وہ افسوس ناک ہے ، مگر میری اس تحریر کا موضوع یا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں موسیقی کا شعبہ زرخیز ہےیا نہیں ، میرا جواب ہاں میں ہے ، آپ اس پر روشنی ڈالیں کہ ایسا ہے کہ نہیں ، اب ایک ہی تحر یر میں سب باتیں تو بیان نہیں ہوسکتی ، تومجھے بہت آسانی ہوگی اگر آپ جس تھیم پر تحریر ہے ،اس پر مرکوز ہوکر مکالمہ کریں ۔ بہت شکریہ
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:07am
@solani صاحبہ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے ،مگر اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عدنان سمیع خان پاکستان میں رہ کر اسٹاربنا ، کیا ایسا نہیں ہے تو پھر عزت تو ملی ، آپ کے اس نکتے سے متفق نہیں کہ اسے عزت نہ ملتی ، عزت ملی شہرت ملی تو ہی کسی دوسرے نے اس کو قبول کیا ۔
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:10am
@Noman Alam صاحب کے لیے بے حد شکریہ جناب ، مجھے یہ جان کر اور آپ کی توجہ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ، دیکھیں میں تو عدنان سمیع صاحب کا مداح اس وقت سے ہوں جب کیسٹ 25 روپے کی ملتی تھی اور میں اسکول میں پڑھتا تھا ، ابو سے پیسے لے کر جو چند کیسٹیں اس زمانے میں خریدیں ، ان میں عدنان سمیع سرفہرست تھے ، تو میں تو ان کا سچا مداح ہوں ، لیکن جس طرح کی بیان بازی انہوں نے انڈیا میں کی ہے ، وہ ان کو زیب نہیں دیتی تھی ، وہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتے ، ان کی مرضی ، کہ وہ کہاں رہیں ، لیکن پاکستان نے کے لیے اگر کوئی بھی منفی بات کرے گا تو جواب دینا فرض ہے اگر بالخصوص فنون لطیفہ سے متعلق کسی شعبے سے ۔ اپنا خیال رکھیے گا ، آپ جیسے باشعوردوست اورقارئین ہی میرا علمی سرمایہ ہیں ، جزاک اللہ
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:11am
@رفعت صاحبہ متفق ، ابھی تو کیرئیر شروع کیا ہے ، کوشش کررہا ہے ، تھوڑا ٹائم دیں ، شروع میں سارے ہی بے سرے ہوتے ہیں ، وقت اور ریاضت ہی ان کو سرمیں لاتی ہے ۔ آپ کی توجہ اور تحریر سے متفق ہونے کا شکریہ
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:13am
@irfan صاحب آپ نے جس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے ، یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے ، میں آپ سے متفق ہوں اور میں بھی اس پر سراپا احتجاج ہوتا ہوں اوراسی لیے بہت سارے ایسے فنکاروں کی تعریف ان کی زندگی میں کرتاہوں اگر وہ واقعی باصلاحیت ہیں ، مگر آپ کی بات بھی ٹھیک ہے آپ کی توجہ کا شکریہ
خرم سہیل Feb 20, 2016 03:14am
@نجیب احمد سنگھیڑہ شکریہ سر جی ، بہت عمدہ شعری تبصرہ کیا آپ نے
Asif Feb 20, 2016 11:42am
بلکل بچکانہ تحریر، ناکافی معلومات اور حقیقت سے انحراف۔ اگر دشمن میں بھی کوءی خوبی ہے تو اس کو قبول کرنے سے انسان چھوٹا نہیں ہوجاتا، اور یہاں تو ہم اپنوں کی بات کررہے ہیں۔ کسی کے ملک چہوڑنے سے نہ تو وہ ہمارا اپنا نہیں رہتا اور نہ ہی ہمیں اس بات کی اجازت ملتی ہے کہ ہم اس کے بارے میں کویی بہی غلط بات کرے۔ ہر انسان کو حق حاصل ہے کے وہ اپنی زندگی کے فیصلے اپنی مرضی سے لے۔
Noman Alam Feb 20, 2016 04:11pm
عدنان سمیع خان نے انڈیا کی شہریت لی ہے ، یہ انکی اپنی چوائس ہے ، بالکل اسی طرح جسطرح ہزاروں لوگوں نے امریکا کی شہریت لی ہے ، اور حد تو یہ ہے کہ ہمیں حب الوطنی کے گانے سنوانے والے جرنیلوں تک کے بچے باہر بیٹھے ہیں ، لیکن میرا اعتراض نہیں میں اسکو انکی چوائس سمجھتا ہوں ، باقی بات رہی پاکستان کے بارے میں بات کی ، تو کچھ ان پر بھی لکھیں جو ٹی وی پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ہم اس پاکستان کے آئین کو ہی نہیں مانتے ، انکے بارے بھی تو لکھنا بنتا ہے یا پھر نہیں ؟
خرم سہیل Feb 20, 2016 10:52pm
@Asif صاحب کے لیے ، ہمیں اپنی بات کہنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ دوسرے کی بات کو نہ تو پوری طرح سنتے پڑھتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں ، یہ جتنی باتیں آپ نے کی ہیں ، ان میں سے اکثر کے جوابات تحریر میں ہی موجود ہیں باقی میں نے اوپر جو کمنٹ دیئے ہیں ، اس میں موجود ہیں ، آپ میرے ہی جملے یہاں دھرارہے ہیں ، جو میں نے آپ سے پہلے اوپر کمنٹ میں کہا کہ عدنان صاحب جہاں مرضیں رہیں یہ ان کی زندگی ہے ، ہمارا مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک کے خلاف دشمن ملک میں بیٹھ کر بات نہ کریں ، اب اگر یہ باتیں آپ کو بچکانہ لگتی ہیں تو لگتی رہیں ، ملک سے محبت میں یہ بھی منظور ہے ، انڈیا کی محبت تو آپ کو یاد ہوگی ابھی کچھ عرصہ پہلے راحت فتح علی خان کے ساتھ جو سلوک ہوا بلکہ عدنان صاحب نے جتنے پاپڑ بیلے شہریت حاصل کرنے کے لیے ، وہ سب یاد ہے ، یا پھر یاد کرایا جائے ، نہ جانے کیوں ہم اتنی جلدی چیزیں بھولنے لگتے ہیں ، لہٰذا اپنی عدالت لگا کر فیصلے صادر کرنے کی بجائے سنجیدگی سے مسائل پر غور کریں جناب ۔ شکریہ
خرم سہیل Feb 20, 2016 10:54pm
@Noman Alam صاحب کے لیے ، میں آپ کی پوری بات سے متفق ہوں ، بالکل یہ ان کی چوائس ہے ، کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کرنا ان کی چوائس ہے ، مگر جس ملک سے گئے اس کو کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر براکہناان کی چوائس نہیں ، نہ ہی اخلاقی طورپر نہ ہی قانونی طورپر اورنہ ہی معاشرتی طورپر ، کیا خیال ہے ؟
Muhammad Riyaz Feb 24, 2016 11:42am
What about Atif Aslam, Ustad Hamid Ali Khan, Ustad Barkat Ali Khan. In current environment except Asha, no one seems to be a prominent singer, Pakistan still have many. There was a time when India had K. L. Saigal, Phari Sanyal, K.C. Dev, Rasoolan Bai, Umma Devi, Raj Kumari, then Rafi, Lata, Talat, Hemant, Manaday, Mukesh, Ameer Bai Karnatki, Zuhra Bai Anbalvi, Mohammad Hussain Farooqi, Shamshad Begum came and in Pakistan we had Noor Jehan, Zubeda Khanum, Saleem Raza, Ahmed Rushdi, Mehdi Hasan, Naseem Begum. But there is none in India but Pakistan has many.
Muhammad Riyaz Feb 24, 2016 11:49am
@Noman Alam بھائ امریکہ آپ سے اختلاف ضرور رکھتا ہے بعض باتوں میں، لیکن وہ آپکا جانی دشمن نہیں ہے جبکہ انڈیا ھر طرح سے آپکا جانی دشمن ہے اور رھے گا ۔ چنانچہ وھاں جاکر بسنا، اور جس ملک نے پال پوس کر بڑا کیا ہو اسکی برائ کرنا، بس بھائ میری نظر میں تو پستی کی انتہا ہی کہلائ جاسکتی ہے ۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024