• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

کمبخت ویلنٹائنز ڈے

شائع February 14, 2016

میں بہت تذبذب کا شکار ہوں۔۔۔

اور ایک میں ہی کیا، ساری پاکستانی قوم بشمول ہمارے معزز رہنما اسی کشمکش میں نظر آتے ہیں کہ کیونکہ اس موذی، مغرب زدہ 'ویلنٹائن ڈے' کی وبا سے اپنی نوجوان نسل کو بچایا جائے۔

خبروں، افواہوں اور بیانات کا ایک طوفان ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ابتدا میں کچھ اخبارات نے خبر لگائی کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ویلنٹائنز ڈے منانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم بعد ازاں ان افواہوں کی تردید کر دی گئی اور قوم کو نوید سنائی گئی کہ "یومِ محبت منانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔"

ابھی ہم نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ پشاور ڈسٹرکٹ کونسل نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کر کے صوبائی حکومت کو مجبور کیا کہ کوہاٹ کی دیکھا دیکھی ویلنٹائنز ڈے اور اس سے منسلک تمام تیاریوں اور تقاریب پر پابندی عائد کر دی جائے۔

ایسے میں طبعاً خاموش مزاج صدرِ مملکت کی غیرت بھی جوش میں آئی اور انہوں نے نوجوانوں کو پڑوسی ملک کی 'عبرت انگیز' مثال دے کر متنبہ کیا کہ ویلنٹائنز ڈے منانا غیر اسلامی، غیر اخلاقی، اور غیر ملکی ثقافت ہے۔

آج سے چند دہائیوں پہلے تک ویلنٹائنز ڈے اور ہیلووین وہ اجنبی تہوار تھے جن کے کردار پاکستانی عوام کو نہ لبھاتے تھے، نہ اکساتے، اور نہ ان سے ہمارے تشخص کو کوئی خطرہ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ دنیا سمٹی، فاصلے گھٹے، ذرائع ابلاغ کے جامِ جہاں نما نے مشرق و مغرب کو ایک اسکرین میں مقید کر کے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا، اور ہم سحر زدہ اس طلسمِ ہوشربا میں کھو گئے۔

سو آج حال یہ ہے کہ ہم گنگ بھی ہیں اور سن بھی کہ کسے اپنا کہیں اور کسے اغیار کا۔ کیسے اپنی نئی نسل کو سمجھائیں کہ کم سن بچیوں سے شادی جائز ہے، غیرت کے نام پر کاروکاری قابلِ معافی ہے، ونی، وٹہ سٹہ اور قرآن سے جبری شادی قبائلی رواج ہیں، لیکن ویلنٹائنز ڈے منانا، پھول دینا اور سب سے بڑھ کر محبت کرنا غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے۔

ایک ایسے "مثالی" معاشرے میں جہاں منبر سے غیض و غضب کے فتوے جاری ہوں، تعلیمی اداروں سے دہشتگرد پکڑے جائیں اور وہاں عدم برداشت اور شدت پسندی کا درس ملے، جہاں تحفظ کے لیے والدین کو اپنے بچے بیرونِ ملک بھیجنے پڑیں، جہاں توہین اور تعزیر کے نام پر بغیر کسی ثبوت، گواہ، اور قانون زندہ انسانوں کو سنگسار کرنا یا اینٹوں کی بھٹی میں ڈال دینا انسانیت کی معراج سمجھا جائے، وہاں حسن و عشق، شاعری و مصوری، رقص و موسیقی، فنونِ لطیفہ، اور اس سے جڑی محبت کا اظہار کیونکر قابلِ معافی ہوگا؟

سچ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ فرد اور من حیث القوم شدید الجھن کا شکار ہیں۔ مسئلہ 14 فروری کو ویلنٹائنز ڈے یا حیا ڈے منانے کا نہیں، بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔

ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں ریاستی نظام مفلوج ہے، عام انسان کے لی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، حکومتِ وقت شہریوں کو باعزت روزگار، صحت، تعلیم، انصاف اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے، اور ملک کا نوجوان طبقہ اپنے مستقبل سے خائف نظر آتا ہے، ایسے میں ہمارے رہنماؤں اور اسمبلیوں میں بیٹھے "نمائندوں" کی ترجیحات کیا ہونی چاہیئں اور ابھی کیا ہیں، یہ سب کے سامنے ہی ہے۔

سونے پر سہاگہ ہمارا نوزائیدہ میڈیا۔ جس سرمایہ داری نظام کی کوکھ سے نجی ذرائع ابلاغ نے جنم لیا ہے، وہاں فلاح کی امید رکھنا عبث ہے۔ جن چینلز کی بقاء کا دارومدار اشتہارات پر ہو، وہاں ویلنٹائنز ڈے پر خصوصی نشریات ناگزیر ہیں۔ آخر محبت کے نام پر مصنوعات کی تشہیر نہ کریں گے تو کھائیں گے کیا اور جائیں گے کہاں؟

اصل مسئلہ "کیا کریں، کیا نہ کریں" سے زیادہ "کون کرے اور کیا کرے" کا ہے۔ ہمارے وزیرِ داخلہ، ڈپٹی کمشنر یا کسی جماعت کے سربراہ کا فرض ہمارے بچوں کو یہ بتانا نہیں کہ 14 فروری کا دن منائیں یا نہ منائیں۔ بلکہ ان کا فرض ہمارے بچوں کے لیے ایک ایسے محفوظ معاشرے کی تشکیل ہے جہاں بچے اسکول جائیں تو اس یقین کے ساتھ کہ وہ محفوظ ہیں۔ لیکن بات پھر وہی، کہ ترجیحات کیا ہونی چاہیئں، اور کیا ہیں۔

ہمیں بحیثیتِ فرد، خاندان، معاشرہ، قوم اور حکومت اپنا فرض، اپنے حقوق، اپنے فیصلے اور اپنی آزادی اسی وقت نصیب ہوگی جب ہم دوسروں کے حقوق اور آزادی سلب کرنے سے باز رہیں گے۔

بقولِ ناقد مغرب سے قرضے مانگنا، غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے لیے دھکے کھانا، مغرب کے بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھنا، تعلیم، تفریح اور ترقی کے لیے مغرب کا رخ کرنا جائز ہے، اس سے ہماری ثقافت، اقدار اور ایمان کو کوئی خطرہ نہیں، ایک کمبخت ویلنٹائن نے ہماری روایات کی ایسی کی تیسی کر دی ہے۔

بقول پروین شاکر

منافقتوں کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا

بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستانِ گلاب لکھنا

ڈاکٹر ارم حفیظ

ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (7) بند ہیں

Ashian Ali Malik Feb 14, 2016 04:06pm
یہ صرف ہمارا کمال ہے ہم نے مذہب کےنام پر محبت کے دن کو نفرت کا دن بنا ڈالا۔ اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کا تہوار نہیں منانا نہ مناو مگر اس تہوار کو نفرت کا تہوار نہ بناو
نفیس مبارک Feb 14, 2016 04:32pm
کمال۔ میں بالکل متفق ہوں آپ کی رائے کے ساتھ۔ ویلنٹائن کا اچھا یا برا ہونا اپنی جگہ، لیکن اتفاق سے جو مغرب کی تہذیب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، ان کو اپنی تہذیب کا علم تک نہیں۔ اور نہ کبھی انھوں نے اپنی تہذیب پر عمل کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے سب اسلام اور پاکستان کے سب سے بڑے "رونگ نمبرز" ہیں۔ جو صرف جزوی مسائل پر بات کرتے ہیں، اصل مسائل نظراندز کرتے ہوئے اسی سرمایہ دارانہ نظام کی صف میں کھڑے ہیں، جس کی وجہ سے آج ہم تباہی و بربادی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ حکومت بھی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے عوام کو فضول بحثوں میں الجھا دیتی ہے۔ مزید کیا کہوں، سب کچھ تو آپ نے بہ حسن و خوبی بیان کردیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
بنگش Feb 14, 2016 07:02pm
افسوس صرف اس بات کا ہے کا پاکستان کا مذہبی پڑھا لکھا طبقہ جس دلیل کی بنیاد پر اس تہوار کی مخالفت کر رہا ہے اس حساب سے ہم خود اپنے مذہب کو اکیسوی صدی میں ایک کمزور اور ناتواں دین کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ایک مغربی تہوار جس کو پیار اور محبت سے منصوب کیا جارہا ہے کیا اس کا درس ہمارا دین اسلام نہیں دیتا۔ اسلام کی تو بنیاد ہی پیار، محبت اور امن میں ہے۔ کیا اس تہوار سے ہمارے دین کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ہمارے معاشرے میں تو نوجوان لڑکیوں سے زیادہ ان نابالغ بچوں کے لیئے خطرات زیادہ ہیں۔جو روزانہ کسی مذہبی یا غیر مذہبی فرد کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ آج تک ہمارے مذہبی طبقے نے کھل کر ابھی تک کوئی فتواٰ بھی نہیں دیا۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 14, 2016 08:36pm
حکومت اگر سیانی ہوتی تو ویلنٹائن ڈے پر نیوٹرل رہتی یعنی نہ اس کی مخالفت کرتی اور نہ ہی اس کی حمایت۔ لیکن کھلے عام حکومتی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے نے حکومتی عزائم اور اس کی پالیسیوں پر سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ کیا وہ جو کچھ کر رہی ہے، اس میں نیک نیتی بھی شامل ہے یا نہیں؟۔ عمومی طور پر ویلناٹائن ڈے کی مخالفت کرنا، طالبانیت کی سپورٹ کرنا ہے۔ ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل صدر کے پاس ہے۔ بہرحال، کبھی کبھی، دن ہو کہ رات، جھڑی ہو یا دھوپ، ٹھنڈ زیادہ ہو یا کم، خیال آتا ہے کہ حکومت ڈری ہوئی ہے یا پھر اس کے ڈانڈے بھی وہیں جا نکلتے ہیں جہاں سے ویلنٹائن ڈے کی مخالفت شروع کرنے کا خیال پنپتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اپریشن، ضرب عضب، کراچی اپریشن، نیشنل ایکشن پلان کو حکومتی سطح پر جو بھی سراہا جاتا ہے، وہ مجبورآ سراہا جاتا ہے۔ غور کریں اورنج ٹرین نے سب کچھ تہس نہس کر دیا مگر چوبرجی کے نزدیک ایک “ہمخیالی سربراہ“ کو کچھ نہیں ہوا اور روٹ کو پرے یونیورسٹی گراؤنڈ سے گزارا جا رہا ہے۔ ایسے میں ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کر کے حکومت نے عوام اور دنیا کو اپنی چھپی ہوئی حقیقت عیاں کر دی ہے!
hafsa Feb 14, 2016 08:50pm
jistarah society ki doosri buraian naqabil-e- qabul hain issi tarah valantain ko mana na naqabil -e -bardashat ha .kuch gandagi ka ye matlab nahi k har gandagi ki ijazat hogi. har burai se apne watan ko bachana hai.
solani Feb 15, 2016 02:56am
Valentine day puri duniya me manaya ja raha hai. Apni sonch ko (forward) rakhna zaruri hai. Apni family se mohabbat karna koi jurum nahi hai. Maa, Baap, Biwi bacho kay sath kush rehna yani Janat May Rehne ke jaisa hai.
solani Feb 15, 2016 08:15am
Ab muhabbat bhi kambakht lagne lagi. Aap ne suna hai (God is Love) sub kuch love hi hai. Family may muhabbat bate Maa Bap Behen Bhai Biwi Bache, Yehi to janat hai.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024