امریکا ایف-16 طیارےپاکستان کو فروخت کرے گا
واشنگٹن: امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے امریکی کانگریس کو بتایا ہے کہ انھوں نے پاکستان کو 8 ایف-16 جنگی طیاروں کی فروخت کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔
مذکورہ تجویز کو 30 روزہ نوٹیفکیشن کی مدت مکمل ہونے پر حتمی شکل دے دی جائے گی۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے امریکی کانگریس کو بتایا تھا کہ وہ پاکستان کی فضائی کارروائیوں کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہے، اس اعلان کو خفیہ رکھے جانے والی ایف 16 طیاروں کی ڈیل کے حوالے سے دیکھا جارہا تھا۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان مارک ٹونر نے گزشتہ روز ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور امریکا کی خارجہ پالیسی کے مفاد میں ہے.
واضح رہے کہ یہ ریمارکس اوباما انتظامیہ کو پاکستان کو 8 ایف-16 لڑاکا طیاروں کی فروخت سے روکنے کے لیے امریکی میڈیا میں کچھ امریکی قانون سازوں کی جانب سے چلائی جانے والی ایک مہم کے حوالے سے سامنے آئے.
مزید پڑھیں: ’پاکستانی دفاعی صلاحیت بڑھانے کیلئے امریکا پرعزم‘
خیال رہے کہ کانگریس کی جانب سے منظور شدہ طیاروں کی فروخت میں تاخیر کی گئی، تاہم اوباما انتظامیہ اس معاہدے کو آگے بڑھانے کے حوالے سے دلچسپی رکھتی ہے، انتظامیہ کا اصرار ہے کہ یہ امریکی مفاد میں ہے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ہونے والی نیوز بریفنگ کے دوران ایک ہندوستانی صحافی نے مارک ٹونر سے سوال کیا کہ کیا امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کو ریپبلکن کے سینیٹر بوب کورکر کا مراسلہ مل چکا ہے، جس میں انھوں نے پاکستان کو منظور شدہ فروخت سے روکا ہے۔
جس پر ترجمان کا کہنا تھا کہ 'پالیسی کی وجہ سے، ہم کیپٹل ہل میں منظور شدہ ہتھیاروں کی فروخت یا ٹرانسفر یا ابتدائی مشاورت پر بیان جاری نہیں کرتے'۔
لیکن انھوں نے پاکستان میں امریکا کی دفاعی امداد کے وسیع تر مسئلے کو حل کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم کانگریس کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے پارٹنرز کو سیکیورٹی امداد دینے کے لیے پُرعزم ہیں اور مشترکہ سلامتی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات میں ہیں'۔
افغانستان میں امریکی فوج پر حملوں کے لیے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے استعمال کے حوالے سے پوچھے گئے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ 'ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو دی جانے والی امریکی دفاعی امداد ان کی جانب سے انسداد دہشت گردی اور انسداد دراندازی آپریشن میں مدد فراہم کرے گی'۔
اس نقطہ نظر کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے آپریشنز 'دہشت گردوں کی جانب سے افغانستان میں حملوں کے لیے پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے میں مدد فراہم کریں گے'۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے امریکا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ 'یہ آپریشنز پاکستان اور امریکا دونوں کے مفاد میں ہیں اور وسیع پیمانے پر خطے کے مفاد میں بھی ہے'۔
پاکستان کو امریکا کی جانب سے دی جانے والی دفاعی امداد سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں کمی کے دعوے کے حوالے سے موجود اعداد شمار سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس وقت ایسے اعدادو شمار موجود نہیں ہیں،ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ خطے میں کوئی بھی ایسا ملک موجود نہیں ہے جو پاکستان سے زیادہ دہشت گردی کا شکار رہا ہو۔
'ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے وسیع دفاعی مفاد میں ہے کہ پاکستان کو مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ ان دہشت گرد نیٹ ورکس کو تباہ کرنے میں اپنی صلاحیتیں استعمال کرے، ساتھ ہی ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان خطے اور محفوظ اور پُرامن افغانستان کے حصول میں اہم شراکت دار ہے'۔
مارک ٹونر نے مزید کہا کہ امریکا، افغانستان امن مذاکراتی عمل کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ حال ہی میں پاکستان نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اور چار رکن ممالک پر مشتمل کوآرڈینیشن گروپ کے پہلے 3 میں سے دو اجلاسوں کی میزبانی بھی کی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ' پاکستان نے اپنی سرزمین پر کام کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورکس میں سے کچھ کے خلاف متعدد کارروائیاں بھی انجام دی ہیں'۔
ترجمان نے کہا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ ان نیٹ ورک کا خاتمہ ہماری قومی سلامتی کے مفادات کے ساتھ ساتھ علاقائی سلامتی کے مفاد میں بھی ہے'۔
یہ خبر 13 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں