آئی پی ایل بمقابلہ پی ایس ایل: ایک ہندوستانی کی نظر میں
عزیز پاکستانی کرکٹ شائقین!
اب آپ کے پاس آئی پی ایل کی طرح اپنی کرکٹ لیگ ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ پاکستان سپر لیگ کی ٹی وی ریٹنگز کسی بھی مصالحہ بولی وڈ فلم سے زیادہ ہوں گی، اور جوش و جذبہ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ جاوید میانداد کے آخری گیند پر چھکا مارنے کے وقت تھا۔
کرکٹرز کو بھی بے پناہ معاوضہ ملا ہے، اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں معاوضہ کب نہیں ملا؟ یہ آپ کی سپر لیگ کا پہلا سیزن ہے، اور کسی بھی نئی ڈیوائس کی طرح آپ کو اس کی بیٹری لائف کافی عرصے بعد معلوم ہوگی۔
دوسری جانب ہم اس سب سے گزر چکے ہیں، اور یہ ہمارا نواں سال ہے۔
اپنی ٹیم کی جیت پر اسٹیڈیم میں شاہ رخ خان کی قلابازیاں اب کوئی نئی اور دلچسپ چیز نہیں رہیں، جبکہ پریتی زنٹا چاہے کتنے ہی جوش سے پرچم کیوں نہ لہرائیں، یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ اتنے سیزنز میں سے وہ کسی ایک میں بھی درست ٹیم منتخب نہیں کر پائی ہیں۔
پریانکا چوپڑا کافی عرصہ قبل جا چکیں، اور اس سال انوشکا شرما بھی ویرات کوہلی کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اسٹیڈیم میں موجود نہیں ہوں گی۔
اگلے ماہ آپ پی ایس ایل کے فوراً بعد ورلڈ ٹی 20 کپ میں جائیں گے۔ ہم نے بھی 2009 میں یہی کیا تھا، ہمارے کچھ اہم کھلاڑی تھکے ہوئے اور انجرڈ تھے۔
ہمیں ٹورنامنٹ سے باہر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی، اور عام طور پر پرسکون رہنے والے گیری کرسٹین، جو ان دنوں ہمارے کوچ تھے، نے جائز طور پر آئی پی ایل کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
پی ایس ایل اتنا طویل ٹورنامنٹ نہیں ہے، اور امید ہے کہ آپ تھکان اور انجریز سے نمٹ پائیں گے اگر کوئی ہوئیں بھی تو۔ صرف ایک بات کا خیال رکھیے گا کہ کچھ کھلاڑی پیسوں کے لیے اپنی انجریز چھپاتے بھی ہیں۔
ہمارا آئی پی ایل کلینڈر نئے سیزن کی شروعات سے قبل کھلاڑیوں کے لیے ضروری آرام کی مدت کو مدِنظر نہیں رکھتا۔ امید ہے کہ آپ کے بورڈ نے اس بات کا خیال رکھا ہوگا۔
مگر جلد ہی آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جب داؤ پر بہت کچھ لگا ہو، تو کرکٹ جسے عام طور جینٹل مین کا کھیل کہا جاتا ہے، وہ جینٹل مین کا کھیل نہیں رہتا۔ ایسے بھی کھلاڑی ہوں گے جن کا مقصد صرف اس ٹورنامنٹ میں ہر سال کھیلنا ہوگا۔
ایک اچھے کھلاڑی کی پہچان ٹیسٹ کرکٹ سے ہوتی ہے، اور میچ کا یہ فارمیٹ اب دم توڑتا جا رہا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے لیے نوشتہ دیوار پڑھنا کافی آسان ہے۔ ہمارے روہت شرما اور رویندرا جدیجہ جیسے ٹی 20 کے باقاعدہ کھلاڑیوں کو اس انداز میں یاد نہیں کیا جائے گا جس انداز میں راہول ڈریوڈ کو کیا جاتا ہے۔
ان میچز کو دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں سے تکنیک کی توقع نہ کرنا بھی دانشمندانہ ہوگا، کیونکہ کرکٹرز ایسا ہی کرتے ہیں۔ نہ ہی ایسے ٹورنامنٹس شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی پیدا کر سکتے ہیں۔ آپ میں سے کتنے لوگ اکشر پٹیل یا سنجو سیمسن کے نام سے واقف ہیں؟
امید ہے کہ پی ایس ایل منافع کا کچھ حصہ مقامی کرکٹ لیگ پر بھی لگائے گی کیونکہ ایک مکمل کھلاڑی اس طرح کے ٹورنامنٹس میں سے دریافت نہیں کیے جا سکتے۔
اس کے علاوہ بکیز بھی آس پاس منڈلاتے رہیں گے تاکہ شکار پھانس سکیں، اور وہ ایسا کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
خاص طور پر وہ کھلاڑی نشانہ بنتے ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سال نتھو سنگھ، جو کہ ایک فیکٹری کارکن کے بیٹے ہیں، کو آئی پی ایل کی فرنچائز ممبئی انڈینز نے 3.2 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔ ان کے جیسے اور بھی کئی کھلاڑی ہیں جنہوں نے اس قسم کی دولت کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ وقت ہی بتائے گا کہ کیا ان کا سنجیدہ عزم انہیں اس کشمکش سے بچا سکتا ہے جو کہ اس غیر سنجیدہ قسم کی ٹورنامنٹس لاتی ہیں۔
ہماری دو ٹیموں، بشمول مہندرا سنگھ دھونی کی زیرِ قیادت انتہائی کامیاب چنائی سپرکنگز کو دو سال کے معطل کر دیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کر دی جاتی، مگر انڈین پریمیئر لیگ کو انڈین پنٹرز لیگ ایسے ہی تھوڑی کہا جاتا۔ ابھی بھی آئی پی ایل کی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث دس سے زائد کھلاڑیوں کے نام سربمہر لفافے میں بند ہیں۔
اسپاٹ فکسرز کی آپ کی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے۔ اب تو محمد عامر واپس آ چکے ہیں، مگر جب بھی وہ ایک ساتھ دو نو بالز کروائیں گے، تو کیا آپ کو شک نہیں ہوگا؟
اس لیے یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ حقیقی اسپورٹس نہیں ہے، اور چمک غائب ہو کر سیاہی واضح ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ اس طرح کے ٹورنامنٹس پیسہ بنانے کے لیے ہوتے ہیں، کریئرز بنانے کے لیے نہیں۔
اور ہم یہ اس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں آئی پی ایل نے نقصان پہنچایا ہے۔
آپ کی مخلص
ایک ہندوستانی کرکٹ شائق (جسے آئی پی ایل نے رن آؤٹ کر دیا ہے۔)
پس نوشت: چند ٹیسٹ میچ دیکھنا مت بھولیے گا؛ یہ صرف کھلاڑی ہی امتحان نہیں، بلکہ اس کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ حقیقی شائق کون ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں