عزیر بلوچ 13 ماہ سے زیر حراست تھے، اہل خانہ
کراچی : عزیر جان بلوچ کی کی سب سے بڑی بیٹی 14 سالہ یسریٰ نے ان کی گرفتاری کے حوالے سے بلآخر خاموشی توڑ ہی دی، ان کا کہنا تھا کہ عذیر بلوچ کو انٹر پول نے 27 دسمبر 2014 کو دبئی ائیر پورٹ سے گرفتار کیا تھا۔
عزیر جان کی کراچی کی عدالت میں پیشی کے بعد یسریٰ نے بتایا کہ جس وقت ان کو حراست میں لیا گیا تھا میں ان کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی، حکام نے اس وقت صرف اتنا بتایا تھا کہ انہیں کچھ وقت کے لیے حراست میں لیا گیا ہے، لیکن اس کے بعد 13 ماہ لگ گئے، اور اس دن کے بعد ہم نے ان کو آج دیکھا ہے، ہمیں خوشی ہے کہ وہ زندہ ہیں۔
رینجرز کی جانب سے عزیر جان بلوچ کی گرفتاری کی خبر جیسے ہی علاقے میں پھیلی تو لیاری میں ہڑتال کا خدشہ پیدا ہوا تھا البتہ تمام دکانیں اور کاروباری مراکز کھلے رہے تاہم ان کے خاندان کے افراد اور قریبی لوگ لیاری میں سنگھو لین کے علاقے میں ان کے گھر پر جمع ہوئے۔
خاندان کے افراد نے رینجرز کی جانب سے عزیر جان بلوچ کی گرفتاری کے دعویٰ پر سنگین شکوک وشبہات ظاہر کیے۔
خاندان کے افراد کا کہنا تھا کہ ان کو یقین تھا کہ عذیر جان بلوچ گذشتہ ایک سال سے ان کی حراست میں موجود تھا، پولیس کو ان کی منتقلی کی رپورٹس میں تاخیر بس آنکھوں کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
عزیر بلوچ کے گھر کے باہر کھڑے علاقہ مکین عبد الطیف کا کہنا تھا کہ علاقے میں یہ قیاس آرائیاں موجود تھیں کہ عذیر بلوچ کو دوران حراست قتل کر دیا گیا کیونکہ گذشتہ ایک سال سے اس کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : عزیر بلوچ کی ڈرامائی گرفتاری
وہاں موجود دیگر افراد نے یاد دہانی کروائی کہ کس طرح لیاری کے ایک اور گینگسٹر عبدالرحمٰن عرف رحمٰن ڈکیت کو کو کیسے دوران حراست مارا گیا تھا۔
برقع میں خود کو چھپائے عزیر بلوچ کی والدہ نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کے بیٹے کو سیاسی کھیل میں پیادے کے طور ہر استعمال کیا، اب وہ اس کو بھگتیں گے۔
خیال رہے کہ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب 2013 میں رینجرز نے گینگ وار کے کارندوں، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف آپریشن کے پہلے فیز کا آغاز کیا۔
مختلف گروہوں میں مسلح تصادم اور رینجرز کے آپریشن کے باعث گینگ وار کے اکثر افراد اور لیڈروں کو لیاری چھوڑنا پڑا، عزیر بلوچ نے بھی اس علاقے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پہلے وہ یورپ کے ملک ناروے گیا جہاں سے اس نے پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع ایران کے صوبے سیستان کا سفر کیا جبکہ اس کے بعد وہ متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی منتقل ہوا۔
عزیر بلوچ کے گھر کے باہر موجود عبد الطیف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بھی لیاری میں انتشار پیدا کرنے میں برابر کی شریک رہی ہے، خیال رہے کہ صوبائی حکومت نے عزیر بلوچ اور ان کے مخالف نور محمد عرف بابا لاڈلا کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کیے تھے۔
عبد الطیف کا دعویٰ تھا کہ اگر آپ کل لیاری میں الیکشن کروائیں اورلوگوں سے کہیں کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے، تو وہ بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں عذیر جان بلوچ کو ترجیح دیں گے۔
ایک اور علاقہ مکین محمد فضل توجیح دی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کہ لوگ جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب ایک ووٹ بھی نظریاتی بنیاد پر حاصل نہیں کرتی بلکہ اس کو ووٹ عوام کی ضروریات پورا کرکے ملتے ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ ان کو چند نوکریاں مل جائیں گی لیکن اس کے مقابلے ہماری بہت ساری ضروریات عزیر جان بلوچ ہی پورا کرئے گا، چاہے کسی کی بیٹی کی شادی ہو، یا کسی کے گھر پر ماہانہ راشن پہنچانا ہو عزیر بلوچ ہی کرے گا، اور جب وہ یہاں موجود تھا وہ یہی کرتا تھا۔
لیاری میں عزیر جان بلوچ کے گھر پر ماحول پر سکون تھا البتہ کبھی کبھی اس کی قسمت پر ورنے کی آوازیں ہوتی تھیں، ایسے میں ان کی بیٹی 14 سالہ یسریٰ کا کہنا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں جن افراد کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا رکن بنانے کے لیے میرے والد نے پشت پناہی کی تھی ان لوگوں نے پچھلے ایک سال میں ایک بار بھی ان کی خیریت دریافت نہیں کیا، ہم اپنے طور پر ہی سب کچھ کر رہے تھے۔
یہ خبر 31 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔