• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

زبانیں معاشی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟

شائع January 30, 2016
پاکستان کی معاشی ترقی اس وقت ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد معاشی ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے. — خاکہ خدا بخش ابڑو۔
پاکستان کی معاشی ترقی اس وقت ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد معاشی ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے. — خاکہ خدا بخش ابڑو۔

زبان نہ صرف اظہار خیال کا ذریعہ ہوتی ہے بلکہ شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں 30 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور اردو زبان ان تمام مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔

ہندوستان کے مسلمان انگریزی زبان سے ناواقفیت کے باعث تعلیمی میدان میں پیچھے تھے جو ان کی معاشی اور معاشرتی بدحالی کی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی۔ چنانچہ سر سید احمد خان نے اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تعلیمی ادارے قائم کیے اور ان تمام تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو مکمل طور پر رائج کیا۔ سائنٹیفک سوسائٹی کے قیام کا مقصد جدید مغربی تعلیم پر مبنی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا تھا، کیونکہ کوئی بھی چیز جتنے بہتر انداز میں آپ اپنی مادری زبان میں سمجھ سکتے ہیں، اتنے بہتر انداز میں کسی اور زبان میں نہیں، پھر چاہے آپ کو اس زبان پر کتنا ہی عبور کیوں نہ حاصل ہو۔

پاکستان دنیا کی 26 ویں بڑی معیشت ہے اور ملکی مجموعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان عالمی رینکنگ میں 46 ویں نمبر پر ہے، جبکہ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

پڑھیے: کیا پاکستان معاشی انقلاب کے نزدیک ہے؟

پاکستان کی معاشی ترقی اس وقت ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد معاشی ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے، جس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے آگاہی ہو۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اور بالخصوص وہ جو تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں، انگریزی نہیں جانتے، اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے سیکھنے اور سکھانے کے اس عمل میں قومی سطح پر اردو اور مقامی سطح پر مقامی زبانوں کو مکمل طور پر رائج کیا جائے۔

یہ آگاہی مختلف طریقوں سے دی جاسکتی ہے۔ ٹی وی پروگرامز اور سیمینارز کے ذریعے ایسی کانفرنسوں اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے جس میں مختلف شعبہ جات بشمول صنعت اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو موجودہ وسائل کے ساتھ پیداوار میں بہتری لانے اور اسے بڑھانے کی جدید تکنیکوں سے روشناس کروایا جائے۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشیات پر مبنی اردو رسالے شائع کیے جائیں جس میں نہ صرف لوگوں کو ان کے فرائض و حقوق سے متعلق آگاہی دی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی تفصیلی مضامین شائع کیے جائیں۔ اس طرح لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ہر عام آدمی میں خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ معاشی شعور بیدار ہوگا۔

پڑھیے: بینظیر انکم سپورٹ کتنا فائدہ مند؟

ہمارے پاس یہ چلن عام ہے کہ حکومت کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان کرتی ہے، تو مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر تنقید شروع ہوجاتی ہے، اور عوام حقیقی صورتحال سے لاعلم ہو کر یا مخالف سیاستدانوں کے الزامات پر یقین کر لیتے ہیں، یا پھر حکومتی اعلانات پر۔ اس کے نتیجے میں جو بحث جنم لیتی ہے اس کا اختتام صرف گالم گلوچ اور تکرار اور ایک دوسرے کو کرپشن کا حامی کہنے پر ہی ہوتا ہے۔

اور عام آدمی حقیقی صورتحال سے واقف ہوگا بھی کیسے جب بیسیوں مختلف نیوز چینلز پر صبح شام صرف سیاستدانوں کی تکرار ہی عوام کو سنوائی جاتی ہے مگر کسی بھی چینل پر شعبے کے ماہرین کو بٹھا کر شاذ و نادر ہی گفتگو کروائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے غلط معلومات کا پھیلنا عام ہے. ملک کے چوٹی کے معاشی جریدے اور اخبارات انگریزی زبان میں ہیں جو کہ عوام کی اکثریت نہیں سمجھ سکتی، اور اس کا نتیجہ آخر میں ملکی معیشت کو پہنچتا ہے، جس کی ایک مثال اکثریتی عوام کا اپنی آمدنی پر ٹیکس نہ دینا ہے۔

چونکہ ہمارے یہاں لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے ٹیکسوں کا تمام پیسہ محض کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے یا پھر حکمرانوں کے شاہانہ طرز زندگی پر خرچ کردیا جاتا ہے، جو کہ کسی حد تک صحیح بھی ہے، مگر اس تاثر کی وجہ سے اکثر افراد ٹیکس کی عدم ادائیگی میں ملوث ہیں اور ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لہٰذا لوگوں میں ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: اورنج ٹرین منصوبے کی مخالفت کیوں؟

معاشی مضامین کے حوالے سے شائع ہونے والے ایسے تمام رسالہ جات اردو کے ساتھ ساتھ دیگر مقامی زبانوں میں تحریر ہونے کے باعث عوام معیشت کے تمام پہلوؤں، مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بخوبی واقف ہوں گے۔ ان رسالہ جات کے ذریعے فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے ملک کے تمام افراد کو ان کے پیشوں کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ قدرتی وسائل کے استعمال کا تکنیکی اور سائنسی طریقہ جو کہ موجودہ صدی کے مطابق ہو، اردو کے ذریعے لوگوں کو بتائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح وہ انفرادی طور پر معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔

اگر تعلیمی نظام میں قومی یا علاقائی زبان کو رائج کیا جائے تو طالبعلموں میں علم و آگاہی پروان چڑھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا اور وہ ایک باشعور شہری کہلائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں اردو اور انگریزی کی بناء پر کی جانے والی تفریق کا بھی خاتمہ ہوگا اور ملک کا ہر بچہ تعلیم کی نعمت سے فیض یاب ہوسکے گا اور اس طرح ملکی ترقی کا پہیّہ کبھی جام نہیں ہوگا۔

حرا سعید

حرا سعید جامعہ کراچی میں معاشیات کی طالبہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: HiraSaeed06@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 30, 2016 04:39pm
بروقت انصاف، دولت کی مساوی تقسیم، تعلیم و ترقی و اظہار خیال کے یکساں مواقع، کم سے کم منافع کا حصول معیشت بہتر کرنے میں معاون ہیں۔ معیشت گرانے میں سود، ٹیکس چوری، کرپشن، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی، فراڈ، خردبرد، لالچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسی لتیں پیش پیش ہوتی ہیں اور یہ لتیں کمرشلزم، انڈسٹریلزم اور کیپٹلزم کی مہیا کردہ ہیں۔ گویا معیشت کی بہتری کے لیے ایسے ازموں سے چھٹکارا شرط اول ٹھہری !
یمین الاسلام زبیری Jan 30, 2016 10:12pm
میں حرا سعید صاحبہ کی اس کاوش کو سراہوں گا۔ میں البتہ اپنے خیالات ضرور بیان کروں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے نہیں بلکہ غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پیچھے تھے۔ دوسرے تنقید کرنا برا نہیں تنقید کا دررست جواب نہ دیا جانا برا ہے۔ محصول کی چوری کا ہونا ہی حکومت کے بدعنوان کا ثبوت ہے۔ سارے علوم کا پاکستانی زبانوں میں ترجمہ ہر علاقے کی بلدیہ کے کتب خانوں کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ آخر میں سنگھیڑا صاحب کے جواب میں کہوں گا کہ سرمایہ داری بری چیز نہیں ہے، البتہ جو بدعنوان حکومت نہیں کر رہی ہے یعنی مقابلے کی فضا کا قیام وہ سرمایہ داری کے لیے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم دراصل ایک چوں چوں کا مربہ معیشت میں رہ رہے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی Jan 30, 2016 10:38pm
میں اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات سے سو فی صد متفق ہوں۔ میرے نزدیک یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ایک ایسے روزنامہ کی ویب سائٹ میں چھپا ہے جو پاکستان میں انگریزی صحافت میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سچائی اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ پاکستان کے بے شمار مسائل پاکستان میں ایک غیر ملکی زبان کے غیر فطری تسلط کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس زبان کے تعلیمی نظام، سرکاری افسروں کے چناؤ اور کاروبار مملک و انتظامی امور میں بے جا تسلط کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی کی دوڑمیں دوسرے ملکوں سے قرنوں پیچھے ہے۔ پاکستان میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہر سطح پر اردو کا نفاذ ایک فطری راسطہ ہے اور اسی میں اس ملک کی ترقی و خوشحالی مضمر ہے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 30, 2016 10:49pm
@پروفیسر محمد سلیم ہاشمی صاحب، اگر انگریزی زبان غیرملکی ہے تو اردو بھی غیرملکی ہے کیونکہ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں نہیں بولی جاتی۔ اگر غیرملکی زبان ہی کو ترقی کا زینہ سمجھنا لازمی ہی ہے تو پھر انگریزی کو کیوں نہیں کہ یہ تو پھر بھی بین الاقوامی زبان ہے؟
یمین الاسلام زبیری Jan 31, 2016 01:46am
@نجیب احمد سنگھیڑہ آپ سے میری چونچیں ہوتی رہتی ہیں اچھا لگتا ہے۔ مسئلہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی سرکاری زبان ہوجائے۔ مسئلہ ہےہمارے بچوں کے بولنے کا انہیں کچھ جملے انگریزی کے آتے ہیں اور کچھ اردو کے یا اپنی مقامی زبان کے، اس سے ان کی اپچ ختم ہو رہی ہے۔ زبان گلیوں میں بنتی ہے لیکن ہمارے ہاں زبان آسمان سے لائی جارہی ہے۔ اب رہا اردو کا تو مقامی لوگ اس سلسلے میں اپنی نظر رکھتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والا اخبار اردو میں چھپتا ہے۔ اسلام آباد، لاہور ، کراچی، حیدر آباد اور سکھر (یہ چوتھائی پاکسان ہے) میں مقامی لوگ بھی اپنے گھروں میں اردو بولتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اردو اور مقامی زبانوں کی صرف و نحو ایک ہے۔ یہ بھی سن لیں بھارت کے مشہور جاوید اختر کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو چاہیے کہ کشمیر کی طرح اردو پر بھی اپنا حق جمائے اور پاکستان سے کہے وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024