• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

اگر کچھ بچے مر گئے تو کیا ہوا؟

شائع January 21, 2016
کیا ہمارے سیاستدان ان کرسیوں کے لائق بھی ہیں جن کا وہ دفاع کیے جا رہے ہیں؟ — اے ایف پی۔
کیا ہمارے سیاستدان ان کرسیوں کے لائق بھی ہیں جن کا وہ دفاع کیے جا رہے ہیں؟ — اے ایف پی۔

ہم ایک عجیب ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اس دنیا کے ایک کونے میں لوگ لاوارث جانوروں کی جانیں بچانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں، اور ریسکیو مراکز قائم کر رہے ہیں تاکہ کوئی جانور سردی یا بھوک سے نہ مرے۔ دوسری جانب ایسے لوگ ہیں جہاں لوگ درختوں اور جنگلات کو بچانے کے لیے متحد ہو رہے ہیں تاکہ قدرت کے کسی بھی حصے کو جان بوجھ کر نقصان نہ پہنچایا جائے۔

اور دنیا کے تیسرے کونے میں تھے ہے۔

بدقسمتی سے یہاں لوگوں کو اپنی کرسیاں بچانے کے علاوہ کسی اور چیز کو بچانے کی فکر نہیں۔

سال کی شروعات سے لے کر اب تک 60 شیرخوار بچے ہلاک ہوچکے ہیں، اور یوں تھر کے لوگوں اور ان کے رہنماؤں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

مگر وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سمجھتے ہیں کہ ان اموات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی حکومت کو ان اموات کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

پڑھیے: تھر: نہ قدرت مہربان، نہ ریاست

یوں تو وزیرِ اعلیٰ سندھ تھر میں بچوں کی ہلاکت پر اپنی حکومت کا کئی سالوں سے دفاع کرتے آ رہے ہیں، مگر چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ درست کہہ رہے ہیں۔

مان لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی انتھک کوششوں کے باوجود یہ اموات اب بھی ہو رہی ہیں، تو کیا پھر بھی قائم علی شاہ جیسے تجربہ کار سیاستدان کو یہ نہیں معلوم کہ اس حساس مسئلے پر میڈیا سے کیسے بات کی جانی چاہیے؟

"اگر قحط ہوتا یا صحت کی سہولیات ناکافی ہوتیں، تو مرد اور عورتیں بھی اسی طرح متاثر ہوتے۔ ایک ایسی چیز جو ہو ہی نہیں رہی، اس کے لیے میری حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔"

قائم علی شاہ ایک سینیئر سیاستدان ہیں اور کئی سالوں سے وزیرِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں، مگر وہ یہ بھول گئے کہ وہ صوبے کے کسی دور دراز کونے میں جی حضوری کرنے والے لوگوں سے بات نہیں کر رہے، بلکہ وہ سمجھ بوجھ رکھنے اور سوال کر سکنے والے لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔

اپنے تجربے اور شاید تھر میں صحت کے مسائل سے بنیادی واقفیت کے باوجود وہ اپنا یہ بیان داغتے ہوئے یہی سوچتے رہے کہ ایک شیرخوار بچے کی صحت اور ایک بالغ کی صحت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

یہ بات کیسے مان لی جائے کہ ایک وزیرِ اعلیٰ اتنا لاعلم بھی ہوسکتا ہے؟

مٹھی سول ہسپتال میں موجود سہولیات کے بارے میں فخر سے بتاتے ہوئے قائم علی شاہ نے چھاچھرو، ڈیپلو، اسلام کوٹ اور دیگر چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے والدین کی شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی، جو اپنے مقامی صحت مراکز میں دواؤں اور سہولیات کی عدم موجودگی کی شکایت کر رہے تھے۔

مزید پڑھیے: تھر میں اموات: ہم سب ذمہ دار ہیں

اس کے بجائے انہوں نے الٹا سوال داغ دیا: "حکومت صحرا میں ہونے والی ہر موت کے بارے میں کیسے آگاہ رہ سکتی ہے؟"

تو پتہ لگائیں نا وزیرِ اعلیٰ 'صاحب'۔

صوبائی وزیرِ خوراک سید ناصر حسین شاہ کے مطابق تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، جس کا منصوبہ حکومتِ سندھ نے 2014 میں ہونے والی اموات کے بعد پیش کیا تھا، اب تک قائم نہیں کی جا سکی ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی کچھ درجن مزید اموات کی ضرورت ہے تاکہ یہ پروگرام شروع کیا جا سکے۔

چاہے خوراک کی کمی ہو، قحط ہو، زچگی کے مسائل ہوں یا ڈاکٹروں کی عدم موجودگی، یہ سب مسائل حل کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔

ان افسردہ والدین میں معمولی چیک تقسیم کرنا اور چند فنڈز جاری کرنا جنہوں نے ابھی ابھی اپنے بچے دفنائے ہیں، نقصان کی تلافی کرنے کا ایک نہایت بھونڈا انداز ہے۔

اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی ظفر لغاری کو لگا کہ یہ اموات کوئی 'اتنا بڑا مسئلہ نہیں'۔ اور وہ اس معاملے میں بہت صاف گو واقع ہوئے، "دیکھیں، ہسپتالوں میں بھی تو یہی ہوتا ہے، وہاں بھی تو لوگ مرتے ہیں۔"

لغاری صاحب، ان بچوں کے والدین سے پوچھیں کہ یہ اموات کتنا بڑا مسئلہ ہیں، پوچھیں کہ ان اموات سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں۔

کیا ہمارے سیاستدان ان کرسیوں کے لائق بھی ہیں جن کا وہ دفاع کیے جا رہے ہیں؟ اگر پیپلز پارٹی کو ہی سندھ پر حکومت کرنی ہے، تو اب وقت ہے کہ پارٹی کم از کم ایسے شخص کو سامنے لائے جو سندھ کے لوگوں کے تحفظ کے لیے بھی اتنا ہی پرجوش ہو جتنا کہ یہ سیاستدان اپنی کرسیوں کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں۔

ایک ایسا شخص جو قومی المیے پر احتیاط کے ساتھ ردِ عمل دینا جانتا ہو، اور جو اپنی غلطی تسلیم کر سکیں۔ جیسا کہ اس معاملے پر ڈان کے اداریے میں کہا گیا ہے، یہ وقت ہے کہ تنقید کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دینے کے بجائے اپنی ناکامیوں پر توجہ دی جائے۔

شائمہ سجاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sharminda Jan 21, 2016 05:33pm
Go keh sharminda hona kaafi nahin, laikin main sharminda hoon keh aik Pakistani hotay hoay bhook aur pyas ki bais aik bachay ko bacha nahin saka. Kia 18 crore pakistanion kay ghar main itna anaj nahin jo in masoom bachoo ka bhi pait bhar sakay. Yeh sawal har aik Pakistani say roaz-e-hashr kia jaay gaa. Kam say kam main in masoom bachoo ko zimaydaar nahin tehra sakta un ki moat ka.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024