پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
پشاور: جس وقت دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر ابھر کر سامنے آرہا تھا کہ یہاں دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانوں کو ختم کردیا گیا ہے، ایسے میں پاکستان کو دہشت گردی کی نئی لہر نے جنجھوڑ دیا ہے اور نئے سال کے ابتدائی 20 روز میں ملک بھر میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 60 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
گذشتہ روز باچا خان یونیورسٹی کے چار سدہ کیمپس میں ہونے والے حملے کے بعد صرف 2 روز میں دہشت گردی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے، جس میں جمرود خود کش دھماکے میں ہونے والی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
اگر انٹیلی جنس کی جانب سے دی جانے والی وارننگز ہی کو سب کچھ مان لیا جائے، تو خطرہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور آنے والے دنوں میں زیادہ ہولناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
قومی سطح پر موجود سیکیورٹی کی بہتر صورت حال کے باعث گذشتہ کچھ عرصے میں حملوں کی تعداد میں نمایاں 60 فیصد تک کی کمی آئی تھی۔
مزید پڑھیں: چارسدہ حملے کی اہم معلومات مل گئیں، فوج
نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات کے نفاذ کے بعد سے اب تک مختلف حوالوں سے کامیابیاں حاصل ہوئی۔
ملک میں انٹیلی جنس معلومات کے تحت کثیر تعداد میں کارروائیاں عمل میں لائی گئیں اور ان میں بے شمار دہشت گردوں کو گرفتار اور ہلاک کیا گیا۔
خیال رہے کہ ان آپریشنز کے ذریعے بہت سے دہشت گردی کے منصوبے ناکام بھی بنائے گئے تاہم اس کے باوجود دہشت گردی کی یہ لعنت اب بھی موجود ہے۔
ایک کے بعد ایک سانحہ ہمیں اس بات کی حقیقت بتاتا ہے کہ یہ دہشت گردی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، کم از کم فی الحال تو نہیں۔
پاکستان کو اندرونی طور پر سیکیورٹی چلینجز کا سامنا ہے لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ، 20 ہلاک
پاکستان کے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے افغانستان کے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کردیئے ہیں جہاں پر وہ اپنے ڈیتھ اسکواڈ کو تربیت دے کر مسلسل پاکستان میں قتل وغارت کے لیے بھیج رہے ہیں۔
خلیفہ عمر منصور، جو کالعدم لشکر جھنگوی کا سابق کارکن رہا ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں اپنا علیحدہ گروپ چلا رہا ہے، نے گذشتہ روز باچا خان یونیورسٹی کے چار سدہ کیپمس پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ افغانستان کے شمالی صوبے ننگرہار کے ضلع نازیان سے آپریٹ کررہا ہے اور حملہ آوروں کی تمام فون کالز افغانستان ہی میں ٹریس ہوئیں.
دہشت گردوں کے مذکورہ کمانڈر المعروف عمر نارے ماضی میں پشاور کے گرد ونواح میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے، جن میں دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول اور ستمبر 2015 میں بڈھ بیڑ ایئربیس پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ فروری 2015 میں حیات آباد میں امامیہ مسجد پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار بھی عمر نارے ہے، جس میں 20 نمازی ہلاک ہوگئے تھے۔
یاد رہے کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ننگرہار، کنڑ اور دیگر علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے افغانستان کا دورہ کیا تھا، افغان صدر اشرف غنی باہمی اقدامات کے خواہش مند تھے، لہذا دونوں فریقوں نے دہشت گردوں کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا.
مزید پڑھیں: پشاور اسکول حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک
بعد ازاں افغان امن مذاکرات کا بھی آغاز کیا گیا تاہم وہ بھی بے نتیجہ ثابت ہوئے اور اس کے بعد افغانستان میں طالبان نے جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے متعدد صوبائی دارالحکومتوں اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کرلیا اور کابل سمیت دیگر علاقوں میں خود کش دھماکے بھی کیے۔
ان واقعات پر افغان صدر اشرف غنی نے کچھ عرصہ انتظار کے بعد اعلانیہ طور پر پاکستان کو اپنے ملک کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کا ذمہ دار قرار دے دیا۔
تاہم جلد ہی یہ اندازہ لگاتے ہوئے کہ وہ افغانستان کی موجودہ صورت حال سے پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں نمٹ سکتے، انھوں نے اسلام آباد کا دوبارہ دورہ کیا۔
افغان صدر اشرف غنی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے درمیان ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس نے اس عمل کے دوبارہ آغاز میں مدد فراہم کی۔
یہ بھی پڑھیں: ہارٹ ایشیاکانفرنس کامقصد:'طویل المدتی قیام امن '
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طویل عرصے سے پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کرنے والے افغانستان انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل مستعفی ہوگئے۔
اس کے بعد اشرف غنی نے گذشتہ سال دسمبر میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور انٹیلی جنس تعلقات کے نئے طریقہ کار کی پیش کی۔
اس موقع پر پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر افغان 'امن' عمل میں 'سہولت کار' کی حیثیت سے مدد فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
7 دسمبر 2015 کو جنرل راحیل شریف نے ایک بار پھر افغان دارالحکومت کا دورہ کیا۔
ڈائریکٹرز جنرلز آف ملٹری آپریشنز کے درمیان فوری رابطے کا طریقہ کار وضع کیا گیا اور پاکستان کے ڈی جی ایم او نے دو بار کابل کا دورہ کیا۔
افغان انٹیلی جنس ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) اور پاکستانی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور تعاون پر ہونے والی افہام و تفہیم ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔
مزید پڑھیں: افغان چیف ایگزیکٹوبھی پاکستان پر برس پڑے
لیکن اچانک ہی کچھ عجیب واقعات رونما ہوئے، 4 جنوری کو افغانستان کے شہر مزار شریف میں طالبان نے ہندوستانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا۔ 13 جنوری کو جلال آباد میں قائم پاکستانی سفارت خانے کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا اور اس کی ذمہ داری داعش کے خراسان گروپ نے قبول کی۔
اسی دوران ہندوستان میں پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش آیا اور ساتھ ہی پشاور اور بلوچستان میں دہشت گردوں نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا۔
ویسے تو پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں ہونے والے ان دہشت گرد حملوں کا براہ راست تعلق نہیں ہے تاہم سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ماننا ہے کہ ان میں ناقابل تردید لنک موجود ہیں.
یہ ایک طرح سے 'جیسے کو تیسا' والا نظریہ بھی معلوم ہوتا ہے، جسے افغان این ڈی ایس نے رحمت اللہ نبیل کی سربراہی میں تشکیل دیا تھا، جس کے مطابق 'اگر تم ہمارے ساتھ یہ کرسکتے ہو تو ہم بھی تمھارے ساتھ یہی کرسکتے ہیں' والی پالیسی کو نہایت مہارت سے اپنایا گیا۔
یہاں ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ کے قابل اعتماد کمانڈر لطیف محسود کا کیس بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، جسے اکتوبر 2013 میں امریکا نے اُس وقت گرفتار کیا جب وہ افغان سیکیورٹی ایجنسی این ڈی ایس کے حفاظتی قافلے کے ہمراہ کابل میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جارہا تھا۔ یہ کھیل شاید ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک یہ گٹھ جوڑ ختم نہیں ہوجاتا۔
اور شاید اُس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک پاکستان اور افغانستان خلوص کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں آجاتے۔
یہ خبر 21 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔