• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ویب ڈویلپمنٹ: آپ بھی یہ کاروبار کر سکتے ہیں

شائع January 15, 2016 اپ ڈیٹ January 16, 2016
— اے پی/فائل
— اے پی/فائل

گذشتہ ماہ انٹرپرینیورشپ کے موضوع پر مضامین کے سلسلے کے بعد کئی افراد کی طرف سے یہ رائے آئی کہ ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں شدید مشکلات ہیں۔ اس لیے اس بارے میں مزید کچھ تحریر کریں، جبکہ کچھ خواتین و حضرات کوئی پارٹ ٹائم ‘وائٹ کالر’ کاروبار کرنا چاہتے ہیں، لیکن سمجھ نہیں آتی کیا کریں۔

سوچ بچار کے بعد میں نےفیصلہ کیا ہے کہ آئی ٹی سے وابستہ وہ کریئر جو کم وقت اور کم سرمایہ سے شروع ہوں، ان کی معلومات اکٹھی کر کے پیش کی جائیں۔ اس سلسلے میں پہلے مضمون کے لیے میں نے ویب سائٹ کے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ مضمون ایسے تمام دوستوں کے لیے مفید ثابت ہوگا:

  • جو پہلے ہی سے اس بزنس سے وابستہ ہیں، اور ان معلومات سے ان کے کام میں بہتری آسکتی ہے.

  • وہ نوجوان جو انٹرپرینیورشپ شروع کرنا چاہتے ہیں.

  • ایسے خواتین و حضرات جو اپنے فارغ وقت کو استعمال کر کے کمانا چاہتے ہیں۔

  • وہ بے روزگار افراد جو نوکری کے لیے کسی ہنر کی تلاش میں ہیں.


ویب سائٹ ڈیزائننگ کہاں سے سیکھیں؟

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کم از کم میٹرک تعلیم درکار ہوتی ہے۔ یہ خواتین و حضرات دونوں کرسکتے ہیں۔ اس کا بنیادی کورس تین ماہ کا ہوتا ہے، جس کے بعد مزید چار سے چھ ماہ کے مختلف اعلیٰ کورسز بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے کم از کم ایف اے کی تعلیم درکار ہوتی ہے۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھنے کے لیے پاکستان میں دونوں طریقے موجود ہیں، یعنی رسمی اور غیر رسمی طریقہ تعلیم۔ آپ اپنی پسند کے کسی بھی طریقے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی تعلیم کے رسمی طریقے

پاکستان بھر میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اور نجی ادارے اس کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم دے رہے ہیں، جن کی فیس پانچ ہزار سے بیس ہزار تک ہے، جبکہ صوبہ پنجاب میں ’’یو کے ایڈ‘‘ کے تعاون سے مختلف ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں مستحق افراد کو نہ صرف مفت تربیت بلکہ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ہر صوبے میں فنی تعلیم کے لیے قائم ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی ( ٹیوٹا) کے سرکاری ادارے قائم ہیں۔ جہاں اس کی سستی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اکثر بڑی یونیورسٹیاں بھی چھٹیوں میں اس کے شارٹ کورسز کرواتی ہیں۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی تعلیم کے غیر رسمی طریقے

اگر آپ کسی وجہ سے (مثلاً عمر زیادہ ہے، خاتون خانہ ہیں، جاب کرتے ہیں، یا طالب علم ہیں) اور کسی تعلیمی ادارے میں جا کر باقاعدہ کلاسز نہیں لے سکتے، تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ ویب سائٹ ڈیزائننگ کی مہارت غیر رسمی طریقوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مارکیٹ میں اردو اور انگریزی زبان میں بہت سی کتابیں، اور ویڈیو سی ڈیز اس موضوع پر دستیاب ہیں، جبکہ آن لائن یوٹیوب سمیت بے شمار ویب سائٹ پر اس سلسلے میں ویڈیو لیکچرز دستیاب ہیں۔

آن لائن ویڈیو کورسزکے لیے ایک بڑی مشہور ویب سائٹ lynda ہے جو 1995 سے کام کر رہی ہے اور lynda نامی ایک امریکی خاتون نے قائم کر رکھی ہے۔ اس کی کچھ ممبر شپ فیس ہے لیکن اس کے ویڈیو کورسز بہت معیاری ہیں۔ میں نے خود "کورل ڈرا" کا کورس lynda سے صرف تین دن میں مکمل کیا تھا جس کی بدولت مجھے نہ صرف مالی بچت ہوئی بلکہ وقت اور توانائی سمیت اضافی زحمت سے بھی نجات ملی۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھ لی، اب کیا کریں؟

وہ افراد جو ابھی کاروبار کرنے کی پوزیشن میں نہیں، ان کو یہ ہنر سیکھنے کے بعد نوکری ملنے کے امکانات زیادہ ہوجائیں گے۔ مارکیٹ میں چھوٹی اور درمیانے درجہ کی آرگنائزیشنز، اخبارات، میڈیا ہاؤسز، مالیاتی ادارے، امپورٹ/ ایکسپورٹ، ای کامرس سے وابستہ اداروں، سوفٹ ویئر ہاؤسز، این جی اوز وغیرہ میں ایسے افراد کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور ہنرمند افراد کو زیادہ جلدی وائٹ کالر جاب مل جاتی ہے۔

آج کل مارکیٹ میں ایف اے پاس افراد جن کو ویب ڈیزائننگ خاص طور پر پی ایچ پی (PHP) میں ایک سالہ تجربہ ہو، 25 ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر جاب مل جاتی ہے ۔ جب کہ بی اے، ایم اے اور ایک سالہ کام کے تجربہ کار افراد کو صرف 15 سے 20 ہزار سے تک کی جاب مل رہی ہے۔

دیگر وہ افراد جو فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کوئی بزنس کرنا چاہتے ہیں، وہ ہنر کو بزنس کے لیے بطور اوزار استعمال کر کے جلدی ترقی کرسکتے ہیں خاص طور پر اگر آپ کے پاس بزنس شروع کرنے کے لیے بنیادی سرمائے کی کمی ہے۔ اس کے دو بزنس ماڈل ہیں۔ آپ اپنے حالات کے مطابق کسی ایک بزنس ماڈل کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

فری لانسنگ یا پراجیکٹ کی بنیاد پر

اس بزنس ماڈل میں آپ اپنے گاہک کی ضرورت کے مطابق اس کی ویب سائٹ ڈیزائننگ کرتے ہیں اور طے شدہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اس کام کو آپ گھر میں بیٹھ کر یا چھوٹے آفس یا شیئر آفس کی صورت میں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے کام کرنے والوں کو فری لانسرز بھی کہتے ہیں۔ لوکل مارکیٹ میں اس وقت چھوٹی ویب سائٹ کی تیاری، جس میں تقریباً دو دن سے کم وقت صرف ہوتے ہیں، پر معاوضہ 6 سے 7 ہزار روپے آسانی سے مل جاتے ہیں جبکہ بڑی یا میڈیم سائز ویب سائٹ کی صورت میں یہ معاوضہ ہزاروں روپے تک ہوتا ہے۔

بیرون ملک سے کام حاصل کرنا

اگر آپ کو انگریزی زبان میں مہارت ہے تو آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر بیرون ملک سے بھی کام حاصل کرسکتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر، خاص طور پر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین و حضرات اپنے گھر میں بیٹھ کر دنیا بھر سے کام حاصل کر رہے ہیں اورحقیقت میں ماہانہ ہزاروں ڈالرز کما رہے ہیں۔

دونوں افراد (کام دینے والے اور کام کرنے والے) میں رابطے کے لیے کافی ساری ویب سائٹس قائم ہیں۔ یہ ویب سائٹ (دونوں افراد سے) کام مکمل کرنے کے بعد بل میں سے اپنا کمیشن وصول کرتی ہیں لیکن ان کی سروس اتنی شاندار ہے کہ ان کا کمیشن ادا کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔ ای لانس، او ڈیسک، گرو، فری لانسر، 99 ڈیزائنز، اور مائیکرو ورکرز اس طرح کی مشہور ویب سائٹس ہیں۔

اپنی مصنوعات/خدمات کی فروخت

اس بزنس ماڈل میں آپ اپنی ذاتی ویب سائٹ تیار کرتے ہیں اور خود اپنی کوئی مصنوعات یا خدمات آن لائن فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ یہ چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جیسے موبائل، کتابیں، کپڑے، وغیرہ اور خدمات بھی جیسے سوفٹ ویئر، آرٹ ورک، لوگو ڈیزائن وغیرہ۔

اس کے علاوہ آپ اپنی ویب سائٹس سے عوام الناس یا مارکیٹ کے کسی خاص طبقے کے درمیان رابطے کا کام کرنے کی خدمات پیش کرسکتے ہیں جس کی مثالیں جاب/شادی کی ویب سائٹ، جائیداد/گاڑیوں کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ، زمین ڈاٹ کام، روزی پی کے، پاک ویلز ڈاٹ کام ہیں۔ اس بزنس ماڈل میں آمدنی کے ذرائع، ممبر شپ/رجسٹریشن فیس اور اشتہارات ہیں۔ اس طرح کے کام کرنے والے افراد کو ’ویب انٹرپرینیور‘ کہتے ہیں۔

بس ہمت کریں

دوسرے شعبہ جات کے طرح اس شعبے کے مزید بہت سے فوائد ہیں اور اسی طرح اس میں کچھ نہ کچھ مشکلات بھی ضرور ہوں گی، جن سب کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن مشکلات در اصل ایک موقع بھی تو پیدا کرتی ہیں۔ اگر کچھ دن غور و فکر کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ نے اس فیلڈ میں قدم رکھنا ہے تو پھر دیر مت کریں اور ہمت کریں، تمام مشکلات آہستہ آہستہ خود ہی دور ہوجائیں گی اور کچھ ہی سالوں کے بعد آپ ایک بہتر، خوشحال اور باوقار زندگی بسر کر رہے ہوں گے.

اگلے مضمون میں ’ای کامرس‘ کے موضوع پر کچھ نئی اور مفید معلومات دستیاب ہوں گی۔ اس کے بعد سوفٹ ویئر پروگرامنگ اور گیم ڈویلپمنٹ کے کریئر کے بارے میں واقفیت حاصل کریں گے۔

حسن اکبر

حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (17) بند ہیں

عائشہ بخش Jan 15, 2016 07:56pm
مضمون بہت ہی شاندار ہے ۔ میں نے بھائی نے او ڈیسک، پر کچھ کام حاصل کیا تھا۔ لیکن اس کے لئے بہت زیادہ محنت لگتی ہے ۔ اس کی بجائے لوکل مارکیٹ میں کام آسانی سے مل جاتا ہے ۔ اور ہاں او ڈیسک،صرف ویب سائٹ کے متعلق کام ہی اور بھی بہت سی فیڈ سے متعلق کام مل سکتا ہے ۔ تلاش کرنے اور ملنا تھوڑا مشکل ہے ۔
Farhan khan Jan 15, 2016 08:13pm
@عائشہ بخش i want some help in field of website in gmail plz..
Farhan khan Jan 15, 2016 08:15pm
this artical is very useful....
SAMI Jan 15, 2016 11:09pm
@Farhan khan [email protected]
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 15, 2016 11:58pm
بہت معلوماتی قابل تعریف اور س فیلڈ میں دلچسپی رکھنے والوں کئ لیئے بہت مفید۔
رضوان Jan 16, 2016 09:09am
اچھی معلومات، کم اور موضوع الفاظ میں مہیا کی گئی ہیں۔ اس طرح کے آرٹیکلز شائع ہوتے رہنا چاہیے۔ بلا شبہ، ہمارے ملک میں اعلٰی ٹیلینٹ موجود ہے، لیکن بغیر کسی مناسب رہنمائی کے دھول چاٹنے پر مجبور ہے۔ اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد پہلی مرتبہ ڈان نیوز میں حسن امتیاز صاحب کے اگلے آرٹیکل کا انتظار رہے گا۔
ممتاز حسین Jan 16, 2016 02:41pm
ماشااللہ، پہلے کی طرح شاندار تحریر، مذید تحریر کا انتظار رہے گا۔
Muhammad Furqan SHaikh Jan 16, 2016 03:08pm
Your blog are very helpful and it is so amazing thank you for posting about this unknown knowledge. thanks a lot.
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 16, 2016 05:37pm
سیاپا کچھ زیادہ ہی معلوم ہوتا ہے بہ نسبت متوقع اور غیریقینی آمدنی کے۔ اس لیے یہ سیاپا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ ویب سائٹ ڈیزائننگ میں کامیابی کے لیے تخلیقی ذہن کی شرط ہوتی ہے لیکن ویب ڈیزائنگ کے لیے میٹرک اور ایف پاس ریکوائرمنٹ رکھی گئی ہے جو کہ عام طور پر ھنر مند بنانے کے لیے رکھی جاتی ہے ٹیوٹا وغیرہ میں۔ اتنے تخلیقی کام کے لیے لو گریڈ تعلیم رکھنا سمجھ سے باہر ہے۔ غیررسمی طریقوں سے کمپیوٹر فیلڈ بارے جاننا انتہائی مشکل کام ہے۔ سیلف ھیلپ سیریز کی کتب بطور ڈکشنری کے استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کو پڑھ کر خود سیکھنا کشمیر فتح کرنے کے مترادف ہے۔ کمپیوٹر فیلڈ اور میتھ فیلڈ یہ دونوں شعبہ جات پریکٹس اور بار بار پریکٹس مانگتے ہیں۔ سیلف ھیلپ سیریز کا ایک صفحہ جتنی دیر میں سمجھا جائے اتنی دیر میں کسی ادارے سے باقاعدہ کورس کرنے سے پورا ایک باب پلے پا لیا جاتا ہے۔ مطلب کہ کمپیوٹر فیلڈ باقاعدہ رسمآ حاصل کی جائے تو پلے جلدی پڑتی ہے۔ بتی جانے کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا، اس لیے کمپیوٹر فیلڈ جاب محنت پر سیاہی بھی پھیرتی ہے جس کا نتیجہ غصیالی اور چڑچڑی طبعیت میں نکلتا ہے جو کہ سماجی زندگی پر منفی آثر پاتا ہے۔
راشد منہا س Jan 17, 2016 08:07am
@نجیب احمد سنگھیڑہ آپ کا تبصرہ اچھا ھے لیکن سیکھنے سے سب کچھ آ جاتا ھے
حسن امتیاز Jan 17, 2016 03:13pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ :بہت شکریہ آپ نے اپنا قیمتی وقت صرف کرکے نہ صرف میری گذارشات کا مطالعہ کیا اور اپنا ’’پر مغز‘‘ تبصرہ بھی پیش کیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ویب سائٹ ڈیزائننگ میں کامیابی کے لیے تخلیقی ذہن کی کوئی قید موجود نہیں۔اور نہ ہی مارکیٹ میں موجود تمام کامیاب’’ ویب ماسٹر ‘‘بہت زیادہ تخلیقی ذہین کے مالک ہیں۔ آج کل ویب سائٹ ڈیزائننگ بہت ہی آسان ہے ۔ میں خود گذشتہ کئی سالوں سے اس فیڈ سے بھی منسلک ہوں۔ کوئی بھی مناسب عقل و دانش رکھنے والا مرد/عورت یہ کام کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت بہت زیادہ ذہین ہیں۔ شاید آپ نے اس پہلو پر غور نہیں کیا۔ سیلف ھیلپ کی لائن کا انتخاب صرف وہ ہی افراد کرتے ہیں۔ تو زیادہ ’’سمارٹ‘‘ہوتے ہیں۔ ( کمپیوٹر فیلڈ جاب محنت پر سیاہی بھی پھیرتی ہے ۔)نوکری کوئی بھی ہو بس نوکری ہی ہوتی ہے ۔ آپ میری رہنمائی فرمائے کہ’’ کمپیوٹر فیلڈ ‘‘کے علاوہ اگر آپ کے ذہین میںکس طرح کے کام کا خاکہ موجود ہے ۔جو عوام الناس کےفائدہ مند ہو۔اور جو وائٹ کالر بھی ہو، اس کوبطور جاب یا بطور کاروبار کیا جاسکے ، کم سرمایہ سے شروع ہو ۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 17, 2016 08:07pm
@حسن امتیاز صاحب، کاروبار سے تو میں ویسے ہی بھاگتا ہوں کیونکہ یہ جٹوں کو وارا نہیں کھاتا۔ واہی بیجی ہی جٹوں کو مافق آتی ہے بس۔ بہرحال جرنلزم اور حالات حاضرہ میں دلچسپی ہے لیکن یہ میڈیا والے اپنی پالیسیوں کے علاوہ کسی تحریر کو نیڑے نہیں آنے دیتے۔ پالیسیوں کے مطابق لکھنا درباری رائٹرز کو ہی بھاتا ہے۔ باضمیر و بولڈ رائٹرز پالیسیوں کے مطابق صفحے کالے نہیں کرتےبلکہ وہ اپنی فہم و دانش،تجربہ، غور و غوض،حسیات اور دل و ضمیر کےمطابق لکھتے ہیں اور ریڈرز کو گھیرنے کےلیےاپنےخیالات کو سرخی پاوڈر کے میک اپ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کیری لوگر بل ایشو پر ایک سیاستدان کی طرف سے فی کالم ایک ہزار روپے کی آفر ہوئی تھی جو موقع پر ہی رد کر دی کہ قلم جب بزنس کا روپ دھار لے تو اس میں سے اثر غائب ہو جاتا ہے۔ ویب سائٹ جو جرنلزم اور بلاگرز کے لیے ہیں اور تھوڑی بہت مالی سپورٹ بھی کرتی ہیں، وہ انگریزی میں ہیں جہاں اپلائی نہیں ہو سکتا کیونکہ میری انگریزی بھی ماڑی ہے میری طرح۔ بہرحال بطور استاد دامن: اردو دا میں دوکھی ناہیں تے دشمن نہیں انگریزی دا پچھدے اوہ میرے دل دی بولی ہاں جی ہاں پنجابی اے ہاں جی ہاں پنجابی اے
irshadullah Jan 18, 2016 01:19am
i like this pages iam pakistani
سجاد خالد - Sajjad Khalid Jan 19, 2016 11:34am
@نجیب احمد سنگھیڑہ لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے اٹھایا جانے والا ہر قدم مستحسن ہے۔ آپ کی باتیں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اگر کوئی لکھنے والا اخبار کی پالیسی کے دائرے میں رہتے ہوئے انسانوں کی بھلائی کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ ہم سے زیادہ باہمت اور سلیقہ شعار ہے۔
talmeez Jan 26, 2016 09:01pm
Another great article by dawn news i ilk it
husnain ahmad Jan 27, 2016 01:50pm
it is very useful article. i am interested can you contact me through gmail.?????
Hamdullah Mar 10, 2016 01:50pm
I am with you hassan sahib. plz do not pay attention on the uneducated people like Najeb. also write blogs of this type. it will help the talented but unaware pakisatani generation

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024