• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

گلگت- بلتستان کی حیثیت میں آئینی تبدیلی پر غور

شائع January 7, 2016
اس تجویز کے تحت پہلی بار پاکستانی آئین میں اس پہاڑی خطے کو نام دیا جائے گا— اے ایف پی فائل فوٹو
اس تجویز کے تحت پہلی بار پاکستانی آئین میں اس پہاڑی خطے کو نام دیا جائے گا— اے ایف پی فائل فوٹو

اسلام آباد:چین کی اربوں ڈالرز پر مشتمل سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ دینے کیلئے پاکستان گلگت- بلتستان کی حیثیت میں آئینی تبدیلی لانے پر غور کر رہا ہے۔

مبصرین کے مطابق، اس اقدام سے پاکستان کی کشمیرسے متعلق پوزیشن میں تاریخی تبدیلی آ سکتی ہے۔

انڈیا گلگت-بلتستان پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتا آیا ہے اور اگر پاکستان نے اسے خطے کو آئینی طور پر اپنا حصہ قرار دے دیا تو دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں بحال ہونے والے تعلقات کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

اس تجویز کے تحت پہلی بار پاکستانی آئین میں اسے ملک کا پانچواں صوبہ قرار دیا جا سکتا ہے.

اسلام آباد ہمیشہ سے اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ اس کے زیرتحت کشمیر کے حصوں کو نیم خودمختاری حاصل ہے اور وہ رسمی طور پر ملک کا حصہ نہیں، اور اسی موقف کے تحت وہ پورے کشمیر میں ریفرینڈم کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔

گلگت- بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کے ترجمان سجاد الحق نے اے ایف پی کو بتایا ' وزیراعظم نے اس معاملے پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے اور آپ کو جلد اچھی خبر ملے گی'۔

ایک سنیئر عہدے دار کے مطابق، حفیظ الرحمان اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے جمعرات کو اسلام آباد پہنچے ہیں اور اس دستاویز کو ' چند روز میں متعارف' کرایا جائے گا۔

آئین میں نام شامل کیے جانے کے ساتھ ساتھ گلگت- بلتستان وفاقی پارلیمنٹ میں دو اراکین کو بھی بھیج سکے گا تاہم ان کی حیثیت محض مبصر کی ہو گی۔

گلگت- بلتستان کے اعلیٰ ترین عہدے دار نے بتایا کہ یہ اقدام پاک۔ چین اقتصادی راہداری پر بیجنگ کے اٹھائے گئے تحفظات پر کیا جارہا ہے۔

اس عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ' چین کسی ایسی شاہراہ پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا جو ایسے متنازع خطے سے گزرے جس پر پاکستان اور انڈیا دونوں نے دعویٰ کررکھا ہو'۔

اس راہداری منصوبے پر نئی دہلی پہلے ہی شدید تنقید کر چکا ہے اور انڈین وزیر خارجہ ششما سوراج نے جون 2015 میں اس منصوبے کو 'ناقابل قبول' قرار دیا تھا۔

تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کے مطابق یہ اقدام اسلام آباد کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے اختتام کی خواہش کا سگنل ہے جس کے تحت اپنے کنٹرول حصوں کو ملک کا حصہ بنا کر انڈیا کے زیرتحت حصوں پر نئی دہلی کے دعویٰ کو تسلیم کرلیا جائے۔

ان کا کہنا تھا ' اگر ہم ایسا کرسکتے ہیں تو انڈیا بھی کرسکتا ہے، اس کے لیے بھی وادی کشمیر کو اپنا حصہ بنانا جائز ہوجائے گا'۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

حسن امتیاز Jan 07, 2016 09:19pm
ویسے مسئلہ کشمیر کو جو حل دونوں ملک چاہتے ہیں۔ وہ تو کبھی ہو نہیں سکتا ، یعنی پورا جموں و کشمیر ایک ملک کا ۔۔۔۔ یہ حل زیادہ قابل عمل اور حقیقت پسندی کے زیادہ قریب ہے

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024