’ترکی کو اسرائیل کی ضرورت‘
استنبول: صدر رجب طیب اردوگان نے کہا ہے کہ ترکی کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ اسے اسرائیل کی ضرورت ہے۔
2010 میں غزہ جانے والی ترکی کی ایک امدادی کشتی پر اسرائیلی کمانڈوز کے جان لیوا حملے کے بعد تعلقات ختم ہونے سے قبل نیٹو رکن ترکی اسرائیل کا اہم علاقائی اتحادی تھا۔
بعد میں کئی موقعوں پر اردوگان نےاپنی شعلہ بیانی سے اس دوری کو مزید تقویت دی۔
تاہم، گزشتہ مہینے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بحال کرنے کیلئے خفیہ مذاکرات میں پیش رفت کے انکشافات کے بعد ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔
ہفتہ کو ملک کے بڑے روزناموں میں شائع ہونے والے اردوگان کے بیان کے مطابق، اسرائیل کو علاقے میں ترکی جیسے ملک کی ضرورت ہے۔ ’اور ہمیں بھی تسلیم کرنا چاہیئے کہ ترکی کو اسرائیل کی ضرورت ہے۔ یہی علاقائی حقیقت ہے‘۔
’اگر اخلاص کی بنیاد پر باہمی اقدامات پر عمل درآمد ہو توتعلقات نارمل ہوں گے‘۔
2010 بحران کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفیر واپس بلا لیے تھے۔
اردوگان کے مطابق، تعلقات نارمل کرنے کیلئے ترکی کی تین شرائط واضح ہیں۔غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ، کشتی کے متاثرین کیلئے ہرجانہ اور اس واقعہ پر معافی۔
اسرائیل پہلے ہی معافی مانگ چکا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات میں ہرجانہ کی شرط پر پیش رفت ہوئی ہے لیکن غزہ کی ناکہ بندی ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔
اردوگان نے ناکہ بندی ختم کرنے کی شرط پر ممکنہ پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ترکی کے راستے غزہ آنے والی اشیا اور تعمیراتی مواد کی اجازت دے سکتا ہے۔
اردوگان نے کہا کہ وہ اس حوالے سے تحریری معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ کوئی بعد میں اس سے پیچھے نہ ہٹ سکے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ روسی طیارہ مار گرانے کے بعد ماسکو سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
خیال رہے کہ اردوگان نے گزشتہ مہینے حماس کے سربراہ خالد مشعل کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات کیے تھے، جس کی کوئی تفصیلات میڈیا سے شیئر نہیں کی گئیں۔
اسرائیل بھی چاہتا ہے کہ ترکی سینئر حماس رہنما صالح اروری کو اپنی زمین پر آنے اور یہاں سے سرگرمیاں جاری رکھنے سے باز رکھے۔انقرہ نے تاحال صالح کی ترکی میں موجودگی کی تصدیق نہیں کی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.
تبصرے (1) بند ہیں