علیم ڈار کی چھپی کہانی
پاکستانی امپائر علیم ڈار آئی سی سی ایلیٹ پینل کے تیسرے امپائر ہیں جب انھوں نے 2جنوری 2016 کو انگلینڈ اور آئی سی سی کی رینکنگ میں سرفہرست ٹیم جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کے دوسرے میچ میں ٹیسٹ کرکٹ کے 100 میچوں میں امپائرنگ کا فریضہ انجام دیا۔ وہ ویسٹ انڈیز کے اسٹیوبکنر اور جنوبی افریقہ کے روڈی کورٹزن کے ساتھ 100 میچوں میں امپائرنگ کرنے والے امپائر بن گئے۔
ذرا تصور کیجیے جب آپ کے کرکٹ کیرئر کے پہلے ہی دن دراز قامت، دبلا پتلا وسیم اکرم آپ کو باؤلنگ کررہے ہوں تووہ کیا عظیم دن ہوگا۔
بلے باز علیم ڈار تھے اور وہ وسیم اکرم کی تیز اور باؤنسی گیندوں کاسامنا کررہے تھے، جنھیں گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں ٹرائل کے پہلے دن کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
آئی سی سی کے ایلیٹ پینل کے امپائر علیم ڈار اور وسیم اکرم نے پروفیشنل کرکٹ میں ایک ساتھ قدم رکھا جب دونوں کالج ٹیم کے لیے ٹرائل دے رہے تھے۔
ڈار اور اکرم دونوں لاہور کے سول لائنز میں واقع گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے۔
ڈار کا کہنا ہے کہ "میں گجرانوالہ سے پڑھنے کے لیے اسلامیہ کالج میں داخلہ حاصل کرکے لاہور آیا تھا اور وہاں سے کھیلتا تھا۔"
ان کا کہنا تھا کہ" وسیم اکرم پہلے کھلاڑی تھےجنھیں باؤلنگ کے لیے سب سے پہلے منتخب کیا گیا اور میں بلے بازی کے لیے منتخب کئے جانے والوں میں پہلا کھلاڑی تھا"۔
ایک ہی جگہ سے کیرئر کا آغاز کرنے والے علیم کووسیم اکرم کی طرح کامیاب کیرئر بنانے کی خواہش تھی لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ پاکستان کی سطح تک پہنچنے کے لیے بہت مشکلات ہیں تو انھیں اپنے محبوب فرسٹ کلاس کیرئر کو خیرباد کہنا پڑا۔
ڈار نے کہا کہ میں "ایک کرکٹر بننا چاہتا تھا اور میں نے بہت محنت کی کہ ایک کرکٹر بنوں"۔
"میں نے بہت کم فرسٹ کلاس اور گریڈ دو سطح کرکٹ بھی کم کھیلی لیکن تب مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے کرکٹر بننا مشکل ہے"۔
اس دھچکے نے علیم ڈار کو اپنے بچپن کے خواب سے محروم کردیا لیکن انھوں نے دوسرا خواب سجا لیا لیکن یہ خواب کچھ مختلف تھا جب انھوں نے امپائرنگ کو پیشے کے طورپر منتخب کرلیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "میں نے گجرانوالہ سے نکلتے وقت اپنے والدین سے وعدہ کیا تھا کہ میں بڑا آدمی بنوں گا اور مجھے یہ وعدہ پوراکرنا تھا"۔
جب پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کی بھاگ ڈور ماجد خان کے پاس تھی اور خالد محمود اس وقت بورڈ کے صدر تھے اس وقت پی سی بی کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹرز کو پیشہ ورانہ امپائرنگ میں موقع دینے کا اعلان کیا گیا۔
ڈار نے کہا کہ "یہ اچھا موقع تھا، اظہر زیدی نے مجھے یہ کہتےہوئے نصیحت کی کہ یہ اچھا موقع ہے اور میں اس سے کچھ حاصل کرسکتا ہوں"۔
اس کے بعد علیم ڈار نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور خوش قسمتی تھی کہ انھیں امپائرنگ کے پیشے میں ترقی کے لیے بھرپور مواقع نصیب ہوئے۔
علیم ڈار کو فرسٹ کلاس، گریڈ ٹو اور انڈر 19 کے محض ایک سال کے تجربے کے بعد بین الاقوامی سطح پر امپائرنگ کا موقع مل گیا۔
علیم ڈارکہتے ہیں کہ"میں نے آغاز اپنے کلب سے کیا جہاں عمران نذیر، عبدالرزاق اور دیگر کھلاڑی اس وقت کھیلتے تھے"۔
"میرے خیال میں میں خوش قسمت امپائر ہوں جنھیں فرسٹ کلاس، گریڈ ٹو اور انڈر 19 کے میچوں میں صرف ایک سال کے تجربے کے بعد 2000 میں بین الاقومی سطح پرامپائرنگ موقع مل گیا۔"
"یہاں تک کہ ایک ٹیسٹ کرکٹر کے لیے طریقہ کار کو مکمل کرنے کے لیے 5 سے 6 سال درکار ہوتےہیں جس کے بعد وہ بین الاقوامی میچ میں کھیل سکتا ہے اور یہ سب ایسے شروع ہوا"۔
علیم ڈار کو ورلڈکپ میں امپائرنگ کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں لگا اورانھوں نے ابتدا میں ہی آئی سی سی کو اپنے پہلے ملنے والے موقع سے ہی متاثر کیا۔
علیم ڈار کا نقطہ عروج 2003 کا ورلڈ کپ
علیم ڈار پورے ٹورنامنٹ میں بہترین تھے اور سیمی فائنل میں چوتھے امپائر کی جگہ بنالی، وہ کہتے ہیں کہ "میرے کیریئر کا نقطہ عروج 2003 کا ورلڈ کپ تھا"۔
"آئی سی سی نے صرف 12 ماہ کے تجربے کے باوجود میری کارکردگی کو سراہا اور میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک وہی ٹھہرا اور چوتھی پوزیشن حاصل کی"۔
ڈار کا ماننا ہے کہ "یہ میرے لیے بڑی کامیابی تھی"۔
ورلڈ کپ 2003 میں علیم کی بہترین کارکردگی نے انھیں ٹیسٹ کرکٹ میں امپائرنگ کا قابل بنا دیا اور اکتوبر2003 میں انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان مقابلہ ان کا پہلا ٹیسٹ میچ ثابت ہوا۔
میچ کے بعد علیم ڈارایلیٹ پینل میں شامل ہوگئے اور جب سے اپنی نیک نامی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
علیم کا کہنا ہے کہ ایک امپائر کی حیثیت سے اعلیٰ معیار کی فٹنس اور اعلیٰ درجے کی توجہ درکار ہوتی ہے اور آئی سی سی مستقبل کے کام کے پیش نظر امپائرز کی فٹنس جانچنے کے لیے مختلف طرز کے جائزے لیتی ہے۔
علیم نے کہا کہ"ہم ابھی تک کورسز میں شامل ہوتے ہیں یا آپ کہہ سکتے ہیں آئی سی سی سال میں دو دفعہ ورکشاپ منعقد کرتی ہے، ان کورسز میں ہماری فٹنس ٹیسٹ، آنکھوں کا جائزہ،سننے کا امتحان لیا جا تاہے جو کچھ سخت ہیں"۔
آئی سی سی کے مسلسل تین دفعہ کے سال کے بہترین امپائر کا مانناہے کہ یہ کامیابیاں مشکلوں سے ملتی ہیں اور خاص سوچ کے تحت پیشے میں آپ بڑی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
علیم نے کہا کہ"ہرمیچ میرے لیے بہت اہم ہے، میں ہر میچ کو اپنے پہلے میچ کی طور لیتا ہوں"۔
علیم نے ان کئی لمحات پر خوشی کا اظہار کیا جب ان کا نام ملک کے نام کے ساتھ منسلک کرکے انعامات کے لیے بلایا گیا۔
"میں ان لمحات کو بیان نہیں کرسکتا"۔
ان کا کہنا تھا کہ "بلاشبہ وہ لمحہ میرے لیے خوشی اور فخر کا تھا میرے آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس سطح تک پہنچ جاؤں"۔
علیم ڈار نے اپنے کیرئر کے آغاز میں ویسٹ انڈیز کے مشہور امپائر اسٹیو بکنر کی پیروی کی۔
پنجاب کے شہر جھنگ کے پیدائشی امپائرنے نصیحت کی ہر شخص جو اپنے متعلقہ کیرئر میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اس کو کسی ایک کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ"میں کہوں گا کہ نہ صرف اس پیشے (امپائرنگ) میں لیکن کسی بھی پیشے سے آپ کا تعلق ہو اس کے عروج تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنے شعبے میں بہترین بننے کی کوشش کریں"۔
علیم ڈارکہتے ہیں کہ"کسی کو آئیڈیل مانیں جیسے میں نے ابتدا میں اسٹیو بکنر کواپنا آئیڈیل مانا تھا اور میں اس کی امپائرنگ دیکھتا تھا، آپ کے لیے رول ماڈل بنا نا ہوگا۔"
علیم ڈار نے جو نصیحتیں ابھرتےہوئے امپائروں کو دی ہیں وہ ہم میں سے بہت سوں کو پیشے کے لحاط سے یا کرکٹ کے مداح کے طورپر اہمیت دینی چاہیے۔
علیم کا کہنا ہے کہ"ٹیلی ویژن پر کرکٹ دیکھیں اور امپائر سے قبل فیصلہ دینے کی کوشش کریں چاہے ایل بی ڈبلیو ہو یا کوئی اور فیصلہ"۔
امپائرنگ کے استاد نے ایک عام بات کہی لیکن ان کے مداحوں کے لیے حقیقی نصیحت ہے۔
پاکستان کے علیم ڈار نے کہا کہ "سب سے ضروری، اپنا کام دیانت داری سے کریں اگر کوئی اپنے پیشے سے دیانت نہیں کرتا وہ اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا"۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیانت اور محنت کسی بھی کامیابی کی کنجی ہیں ، اگر آپ کے پاس یہ دونوں چیزیں ہوں تو کوئی خواب آپ کے سامنے نا ممکن نہیں"۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں