پاکستان کے ساڑھے پانچ کروڑ مزدور کیسے استحصال کا شکار ہیں
یہ مضمون 31 دسمبر 2015 کو شائع ہوا تھا، جسے 'یوم مزدور' کی مناسبت سے یہاں دوبارہ شائع کیا جارہا ہے
ایک سنگین جسمانی زخم ایک مزدور اور اس کے گھرانے پر بے پناہ مالی بوجھ ڈال سکتا ہے، اور حالات اس وقت مزید بگڑتے ہیں جب وہ شخص گھر کا اکیلا کمانے والا ہو۔
اس نقصان کا تہرا اثر ہوتا ہے؛ اس سے کارپوریشن کو مالی نقصان پہنچتا ہے، خاندان کے لیے اپنی دال روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور قومی پیداوار پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
حالیہ چند سالوں میں پاکستان میں کچھ بھیانک ترین صنعتی حادثات ہوئے ہیں۔
لاہور میں فیکٹری کا انہدام، جس میں 45 کارکن ہلاک ہوئے، اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں کام کرنے کی جگہوں پر حفاظت اور صحت کسی کی ترجیح نہیں۔
ستمبر 2012 میں کراچی کی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگنے سے 260 سے زیادہ کارکن ہلاک ہوئے۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان میں کام کی جگہوں کی بدترین صورتحال کے بارے میں بھی آگہی پھیلی۔
ان واقعات کے بعد مختصر اور درمیانی مدت کے منصوبے بنائے گئے جن پر عملدرآمد اب بھی باقی ہے۔ اس دوران فیکٹریوں میں غیر قانونی اور خطرناک طریقے سے کام کرنا ایسے جاری ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
اگر حفاظتی اقدامات کو مدِنظر رکھا جائے تو زیادہ تر حادثات روکے جا سکتے ہیں، یا کم از کم ان کی شدت ضرور کم کی جا سکتی ہے۔
کراچی میں ایک ڈرائیو سے آپ پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کس طرح چھوٹی اور بڑی کارپوریشنز اپنے کارکنوں کی حفاظت سے غافل ہیں۔
بل بورڈ ایڈورٹائزنگ کمپنیاں ایسے کئی کاروباروں میں سے ایک ہیں جو اپنے کارکنوں کی حفاظت کو مدِنظر نہیں رکھتیں۔ مزدوروں کو کسی بھی حفاظتی سامان، مثلاً رسیوں، ہیلمٹ اور بیٹھنے کے لیے تختے کے بغیر 50 فٹ اوپر چڑھ کر کام کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
جو رسیاں یہ لوگ استعمال کرتے ہیں، وہ صرف اتنی موٹی ہوتی ہیں کہ ان سے سامان ٹانگا جا سکے۔ مگر ذمہ داران حفاظتی اقدامات کی دھجیاں اڑائے جانے پر خاموش رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ تعمیراتی مزدوروں کو گرنے اور شدید چوٹ لگنے کا خطرہ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور جنہیں تعمیراتی کمپنیاں یا ٹھیکیدار بھرتی کرتے ہیں، اونچی عمارتوں اور گھروں پر چھتیں تعمیر کرتے، اینٹیں اٹھاتے یا ہاتھ گاڑی دھکیلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
مٹی اور ریت کی وجہ سے آنکھوں کا زخمی ہونا عام ہے کیونکہ حفاظتی چشمے پہننے کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ حال ہی میں کچھ کمپنیوں نے اپنے کارکنوں کو تعمیراتی جگہ پر گرتی ہوئی اشیاء سے بچانے کے لیے ہیلمٹ فراہم کرنے شروع کیے ہیں۔
پینٹروں کو اکثر اونچی عمارتوں کی دیواروں پر پینٹ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بسا اوقات زمین سے کئی فٹ اونچائی پر انہیں رنگ کرتے وقت بیٹھنے کے لیے صرف ایک تختہ فراہم کیا جاتا ہے۔
غلامی کی زنجیریں
میں نے ایک پینٹر سلیم سے پوچھا کہ وہ کیوں روز اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔
اس نے جواب دیا، "ڈاکٹر صاحب، آپ کے لیے احتیاط اور حفاظت کے بارے میں باتیں کرنا آسان ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں ایک محفوظ پلیٹ فارم اور رسی اپنی معمولی دیہاڑی سے خرید سکتا ہوں؟ مجھے نو افراد کے اپنے گھرانے کو سنبھالنا ہے اور میری ماں جگر کی مریضہ ہے۔ اگر میں اپنے تحفظ کے بارے میں سوچنے لگوں تو ہم سڑک پر رہ کر پتے کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔"
تمام مزدوروں کے پاس یہی وجوہات ہیں، وہ اور کریں بھی کیا جب وہ 12 گھنٹے کام کرنے پر روز 800 روپے سے بھی کم کماتے ہیں۔ مزدور کام کرنے کے محفوظ ماحول کا مطالبہ نہ کر سکتے ہیں اور نہ کریں گے، کیونکہ انہیں یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ وہ اس کا حق نہیں رکھتے، جبکہ تعلقات رکھنے والے کرپٹ مالکان پولیس اور میڈیکو لیگل افسران کو رشوت دے کر باآسانی قانون کی گرفت سے نکل جاتے ہیں۔
پاکستان میں زندگی کی قیمت بہت کم ہے۔ تعلیم اور آگہی کی کمی اور شدید غربت اس استحصال کی وجہ ہے۔
جہاں ہم اپنے نظام میں موجود خامیوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، وہیں قابلِ تعریف اقدامات کی تعریف کرنا بھی اہم ہے۔ کچھ سال قبل میں نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کے ملازمین کو بغیر کسی حفاظتی اشیاء کے بجلی کے کھمبوں پر چڑھتے دیکھا تھا۔
مگر گذشتہ سال سے ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ کے الیکٹرک (کے ای) کے فیلڈ کارکنوں کو اب ہیلمٹ اور دیگر حفاظتی سامان کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ایک کارپوریشن کو اپنے ملازمین کے تحفظ کے لیے اقدامات کرتے دیکھنا نہایت خوش آئند ہے۔ میرے علم میں آیا ہے کہ کمپنی اب اپنے ملازمین کو باقاعدگی سے جان بچانے کی تربیت بھی دیتی ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کے تحفظ سے متعلق سب سے اہم قانون دستاویز 'فیکٹریز ایکٹ 1934' ہے۔ اس ایکٹ میں مزدوروں کے تحفظ اور صحت اور ان کی خلاف ورزیوں پر تفصیلاً بات کی گئی ہے۔ مگر ملک میں موجود دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی عملدرآمد سے محروم ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں انفراسٹرکچر میں ہونے والی زبردست سرمایہ کاری کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ اب وہ مزدوروں کے تحفظ پر بھی توجہ دے۔
ذیل میں دیے گئے کچھ بنیادی اقدامات کئی جانیں بچا سکتے ہیں:
تعمیراتی سائٹ سے کم از کم دو میل پہلے 'کام جاری ہے' کی وارننگز شروع ہونی چاہیئں۔
ایک میل پہلے سڑک پر کون رکھنے چاہیئں تاکہ ڈرائیور اپنی لین تبدیل کر لیں۔
تعمیراتی جگہوں کے قریب گاڑیوں کی حدِ رفتار کم رکھنی چاہیے۔
ڈرائیورز کو آگے جاری کام سے خبردار کرنے کے لیے روشنیاں لگانی چاہیئں۔
ان علاقوں میں جرمانے دو گنے کر دینے چاہیئں۔
تعمیراتی جگہوں پر صحت اور تحفظ کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروا کر مناسب اقدامات یقینی بنائے جائیں۔
مزدوروں کو ہیلمٹ، چمکدار جیکٹیں، دستانے اور موٹے بوٹس فراہم کیے جائیں تاکہ وہ چوٹوں سے بچ سکیں۔
کام کرنے کی جگہوں پر صرف چوٹ لگنے کے خطرات ہی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی دیگر طبی مسائل ہیں جن کا مزدوروں کو اکثر سامنا رہتا ہے مگر یہ مسائل رپورٹ نہیں ہوتے؛ مثلاً قالین کی صنعت میں کارکنوں کو لاحق جلد کے امراض، کیمیکل فیکٹریوں اور کانوں میں پھیپھڑے کے امراض اور اس کے علاوہ سننے میں دشواری وغیرہ۔
اپنے ملازمین کے باقاعدگی سے صحت اور فٹنس کے چیک اپ، ذہنی تندرستی اور کارکردگی کی جانچ پڑتال وہ بنیادی حقوق ہیں جنہیں مالکان کو یقینی بنانا چاہیے۔
مگر لگتا ہے کہ پاکستان کے 5 کروڑ 60 لاکھ مزدوروں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں