مجھے دوسرا موقع ملنا چاہیے: سلیم ملک
ایک وقت تھا جب سلیم ملک کا شمار پاکستان کے سب سے باصلاحیت بلے بازوں میں ہوتا تھا۔
کلائیوں کے استعمال اور بہترین ٹائمنگ کے ذریعے سلیم نے دنیا بھر کے اسپنرز پر حکمرانی کی جبکہ وہ فاسٹ باؤلرز کے خلاف بھی بہترین بیٹنگ کرتے تھے۔
1982 میں ڈیبو کرنے والے سلیم نے پاکستان کے لیے 103 ٹیسٹ میچوں میں 43.69 اوسط سے 15 سنچریوں اور 29 نصف سنچریوں سکور کرتے ہوئے 5768 رنز بنائے ۔
تاہم، بدقسمتی سے سلیم کو تاریخ میں ان اعداد و شمار کے بجائے میچ فکسنگ کے مرتکب کھلاڑی کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ان پر سن 2000 میں کرکٹ کھیلنے، کسی عہدے پر فائز رہنے یہاں تک کہ کسی بھی کرکٹ سرگرمی سے دور رکھنے کی پابندی عائد کی گئی تھی۔
اسپاٹ فکسنگ کے مرتکب کرکٹر محمد عامر کو حال ہی میں ٹیم کے ٹریننگ کیمپ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ عام خیال یہی ہے کہ وہ جلد ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
ایسے موقع پر 52 سالہ سلیم ملک نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سے اپیل کی ہے کہ انہیں بھی دوسرا موقع دیا جائے۔
ملک نے کہا 'میں غصہ نہیں اور نہ ناراض ہوں لیکن افسوس ہوتا ہے۔ میں نے پاکستان کے لیے کئی میچز کھیلے، بہت سی فتوحات کا حصہ رہا ہوں، یہاں تک کہ کئی میچ تن تنہا پاکستان کو جتوائے اور کئی میچ بچائے تو پھر مجھے دوسروں کی طرح ایک اور موقع کیوں نہیں دیا جاسکتا؟
پاک پیشن کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔'میرا عالمی کیریئر اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا اس لیے مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا. انہیں ایک یا دو قربانی کے بکروں کی ضرورت تھی۔'
مزید پڑھیں: سلیم ملک کی پابندی پر پی سی بی کا آئی سی سی سے رابطہ
سابق مایہ ناز وکٹ کیپر راشد لطیف نے 1995 میں دورہ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دوران پہلی مرتبہ ساتھی کھلاڑیوں کے خلاف میچ فکسنگ کی آواز بلند کی تھی۔
بعدازاں، جسٹس قیوم کمیشن نے سلیم ملک اور عطا الرحمان پر تاحیات پابندی جبکہ وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور، مشتاق احمد، انضمام الحق اور اکرم رضا پر جرمانے عائد کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 'سلیم ملک پر پابندی ختم کی جائے'
جسٹس قیوم کی رپورٹ اس بات کی عکاس تھی کہ 90 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ میں کرپٹ سرگرمیاں کتنی عام تھیں۔
ماضی میں کئی مرتبہ تاحیات پابندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرچکے سلیم ملک نے کہا کہ 'انصاف سب کے لیے ہونا چاہیے، میرا سوال حکام سے ہے کہ میرے ساتھ الگ سلوک کیوں کیا گیا؟ مجھے اتنی کڑی سزا کیوں دی گئی؟ مجھ سے کسی نے ہمدردی کیوں نہیں کی یا مجھے دوسرا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟
انہوں نے کہا 'جسٹس قیوم رپورٹ میں شامل کئی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی کرکٹ کا حصہ بننے کی اجازت دے دی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 16 سال بعد بھی مجھے کوئی دوسرا موقع نہیں دیا گیا۔'
52 سالہ سابق کرکٹر نے کہا کہ انہوں نے کئی مرتبہ اپنا نام کلیئر کروانے کی کوشش کی تاہم انہیں بلیک لسٹ کرکے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ 'میں ایک کرکٹ اکیڈمی کھولنا چاہتا تھا لیکن انہوں نے مجھے ایسا کرنے سے بھی روک دیا۔'
تاہم دو سال قبل سلیم ملک کی درخواست پر پی سی بی نے ان کا نام کلیئر کردیا اور اب انٹرنیشل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے کلیئرنس کا انتظار ہے۔
انہوں نے بتایا 'پی سی بی نے مجھے تحریری طور پر درخواست جمع کروانے کا کہا تھا جو میں دو سال پہلے کرچکا ہوں۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ بورڈ اور عدالتوں نے میرا نام کلیئر کردیا ہے تاہم آئی سی سی نے ابھی تک اس معاملے پر پی سی بی کو جواب نہیں دیا۔ اس لیے میں اب انتظار کررہا ہوں جیسا گزشتہ کئی سال سے کرتا رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آئی سی سی میرا نام کلیئر کردے تاکہ میں کرکٹ کے ذریعے اپنا گزر بسر کرسکوں۔
2010 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پر بات کرتے ہوئے سلیم ملک نے کہا کہ 'اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی یا گناہ ہوجائے اور اسے اس کی سزا مل چکی ہو اور پھر وہ اس پر معافی مانگ لے تو اسے معاف کرکے دوسرا موقع دینا چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو دوسرا موقع ملنا چاہیے کیوں کہ وہ اپنی سزا کاٹ چکے ہیں۔
'میرے خیال میں تینوں کھلاڑی پاکستان کے لیے کھیل سکتے ہیں۔ عامر کی ابھی کافی کرکٹ باقی ہے اور وہ دوبارہ ورلڈ کلاس باؤلر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے معافی مانگ لی ہے اور انہیں موقع ملنا چاہیے بلکہ سلمان اور آصف کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔'
تبصرے (1) بند ہیں