جیت گیا بھٹو، ہار گئی بسمہ
پاکستان بھی کیسا عجیب ملک ہے جہاں جو لوگ ہسپتالوں کا افتتاح کرتے ہیں وہ وہاں علاج نہیں کرواتے اور جو علاج کروانے ہسپتال پہنچتے ہیں انہیں بوجہ افتتاحی تقریب ہسپتال میں گھسنے نہیں دیا جاتا۔
ایسا ہی کچھ ہوا بدھ کے دن جب پورا میڈیا لودھراں کے حلقہ این اے 154 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی سب سے بڑی کوریج میں مصروف تھا۔
اسی دوران ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک بے چارہ باپ اپنی دس ماہ کی بچی کو نازک حالت میں اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال کی جانب رواں دواں تھا۔
بدقسمت بسمہ کا مظلوم باپ جب سول ہسپتال پہنچا تو سندھ دھرتی کے جانشین بلاول بھٹو کی حفاظت کے لیے کیے گئے سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے بروقت ہسپتال کے اندر داخل ہونے میں ناکام رہا، کیونکہ بلاول بھٹو ان جیسے غریبوں کے لیے سول ہسپتال میں قائم کیے گئے ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنے کے لیے وہاں موجود تھے، اور ظاہر ہے کہ صاحب لوگوں کی موجودگی میں گندے کپڑوں اور پسینے میں بھرے ہوئے لوگوں کو وہاں تک کیسے جانے دیا جا سکتا ہے؟ جب گود میں اٹھائی بسمہ ڈاکٹرز تک پہنچی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اتنی دیر ہوچکی تھی کہ بسمہ کو علاج کے لیے لٹانے کے بجائے قبر میں لٹانا پڑ گیا۔
پاکستان جیسے عظیم ملک میں یہ پہلا موقع نہیں جب پروٹوکول کی وجہ سے کوئی مظلوم نام نہاد حکمرانوں کی نام نہاد سیکیورٹی کی بھینٹ چڑھا۔ اس بار فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے حکمرانوں کے پروٹوکول کی وجہ سے زچگیاں بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی سڑکوں پر رکشے میں انجام پائیں یا ٹریفک بلاک ہونے کی وجہ سے لاہور شہر کے کنال روڈ پر۔
پڑھیے: بلاول کے پروٹوکول نے ننھی بچی کی جان لے لی
دس ماہ کی بسمہ کی وفات کی خبر پر بھوکا میڈیا درندوں کی طرح ٹوٹ پڑا اور تمام اہم خبروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا نے اس خبر کو ایسے پیش کیا کہ جیسے ان کی اس تفصیلی کوریج سے ڈرپوک حکمران بِنا پروٹوکول کے گھومنے لگیں گے اور آئندہ کبھی نا تو کوئی بچی ہسپتال دیر سے پہنچنے پر مرے گی اور نا ہی کبھی زچگی سڑک پر پھنسے رکشے میں ہوگی۔
مایوسی کی بات یہ بھی ہے کہ بریکنگ نیوز اور ایکسکلوژِو کا ڈھنڈورا پیٹنے والا میڈیا اس سانحہ کو بھول جائے گا اور کل سے ایک بار پھر پنجاب کے حلقے لودھراں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کو پاکستان کا سب سے بڑا ایشو گردانتے ہوئے گھنٹوں اسے کوریج دے گا۔
اطلاعات کے مطابق معصوم بسمہ کی وفات بلاول بھٹو کی سیکیورٹی کو درپیش خدشات کی وجہ سے کیے گئے حفاظتی انتظامات کی وجہ سے ہوئی جس کی وجہ سے سول ہسپتال کی سڑک پر رکاوٹیں لگائی گئی تھیں جو کہ شدید ٹریفک بلاک کا سبب بنیں۔ معصوم کمسن بسمہ کا باپ دوڑتا ہوا ہسپتال پہنچا مگر ایک گھنٹے تک پولیس نے اسے ایمرجنسی میں داخل نہ ہونے دیا۔ اور جب وہ ایمرجنسی پہنچنے میں کامیاب ہوا تو ڈاکٹرز نے کہا کہ اگر وہ پانچ یا دس منٹ پہلے پہنچ جاتا تو بچی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر بلاول بھٹو ہسپتال کے اندر تھے تو پھر ہسپتال کے باہر کس وجہ سے رکاوٹیں لگا کر ٹریفک بند کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو کی حفاظت تو مانتے ہیں کہ ضروری ہے مگر ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کے مختلف دروازوں کے ذریعے داخلہ کیوں بند کیا گیا؟ بلاول بھٹو ہسپتال میں نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگ کا افتتاح کرنے آئے تھے، ایمرجنسی میں علاج کروانے تو نہیں، پھر کیوں ایمر جنسی کے داخلی دروازوں کے ذریعے داخلے پر پابندی لگائی گئی؟
وزیرِ اعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کے دیگر وزراء نے اپنی اس حرکت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہی ایمرجنسی میں داخلہ ممنوع تھا اور نہ ہی ہسپتال جانے والے راستے بند کیے گئے تھے، اور بلاول صرف 15 سے 20 منٹ میں دورہ کر کے چلے گئے تھے۔ کیا روزانہ ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ذلیل ہونے والے عوام یہ نہیں جانتے کہ ان کے صرف ایک سڑک سے گزرنے پر گھنٹوں کے لیے دور دور تک ٹریفک روک دی جاتی ہے؟ ہم کیسے مان لیں کہ 20 منٹ کے دورے کے لیے سارے راستے بند نہیں کیے گئے ہوں گے کیونکہ بہرحال ہم یہ سب کچھ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
سب سے زیادہ شرمناک بیان تو نثار کھوڑو کا تھا جو کہ سندھ کے وزیرِ تعلیم ہیں۔ وزیرِ تعلیم صاحب کا بیان تھا کہ جو ہوا سو ہوا مگر بلاول کی سکیورٹی بہت اہم ہے۔ ہاں واقعی، صرف بلاول کی سکیورٹی ہی اہم ہے کیونکہ بھٹو کا زندہ رہنا ضروری ہے پھر چاہے عوام مرے یا جیے۔
ویسے بلاول بھٹو کو ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ نئی تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کرنے بلاول ہاؤس سے باہر آئیں؟ اگر ان کو حفاظتی حصار سے نکلنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر وہ تھر میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی باہر نکلتے۔ آئے روز کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگز میں ہلاک ہونے والوں کے جنازوں میں شرکت کے لیے بھی پہنچا کریں۔ اور اگر ان کی سکیورٹی اتنی ہی اہم ہے، تو وہ آخر اس غیر محفوظ ملک کے غیر محفوظ شہر میں رہتے ہی کیوں ہیں؟ یہاں کے عوام پر ایک احسان کر کے اس ملک سے چلے کیوں نہیں جاتے؟
بہرحال اب بلاول بھٹو نے بھی 'انکوائری' کا حکم دے دیا ہے، مگر ہوگا کچھ بھی نہیں۔ پہلے اس ملک میں کتنی انکوائریاں ہو چکی ہیں، ان پر کچھ ہوا؟ جناب بے نظیر بھٹو قتل کی انکوائری رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی تو یہ بسمہ وغیرہ کی کیا حیثیت ہے؟ بسمہ کا چالیسواں تو دور کی بات، سوئم تک بھی میڈیا سمیت پورا ملک اس واقعے کو بھول جائے گا، اور لوگ پھر اگلے ہی دن کسی اور وی آئی پی کی آمد و رفت کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسے رہیں گے.
تبصرے (7) بند ہیں