• KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:12pm
  • LHR: Maghrib 6:30pm Isha 7:54pm
  • ISB: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:12pm
  • LHR: Maghrib 6:30pm Isha 7:54pm
  • ISB: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm

جیت گیا بھٹو، ہار گئی بسمہ

شائع December 24, 2015
10 ماہ کی بسمہ کا باپ اپنی بچی ہاتھ میں اٹھائے ہسپتال میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ — ڈان نیوز اسکرین گریب۔
10 ماہ کی بسمہ کا باپ اپنی بچی ہاتھ میں اٹھائے ہسپتال میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ — ڈان نیوز اسکرین گریب۔

پاکستان بھی کیسا عجیب ملک ہے جہاں جو لوگ ہسپتالوں کا افتتاح کرتے ہیں وہ وہاں علاج نہیں کرواتے اور جو علاج کروانے ہسپتال پہنچتے ہیں انہیں بوجہ افتتاحی تقریب ہسپتال میں گھسنے نہیں دیا جاتا۔

ایسا ہی کچھ ہوا بدھ کے دن جب پورا میڈیا لودھراں کے حلقہ این اے 154 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی سب سے بڑی کوریج میں مصروف تھا۔

اسی دوران ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک بے چارہ باپ اپنی دس ماہ کی بچی کو نازک حالت میں اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال کی جانب رواں دواں تھا۔

بدقسمت بسمہ کا مظلوم باپ جب سول ہسپتال پہنچا تو سندھ دھرتی کے جانشین بلاول بھٹو کی حفاظت کے لیے کیے گئے سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے بروقت ہسپتال کے اندر داخل ہونے میں ناکام رہا، کیونکہ بلاول بھٹو ان جیسے غریبوں کے لیے سول ہسپتال میں قائم کیے گئے ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنے کے لیے وہاں موجود تھے، اور ظاہر ہے کہ صاحب لوگوں کی موجودگی میں گندے کپڑوں اور پسینے میں بھرے ہوئے لوگوں کو وہاں تک کیسے جانے دیا جا سکتا ہے؟ جب گود میں اٹھائی بسمہ ڈاکٹرز تک پہنچی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اتنی دیر ہوچکی تھی کہ بسمہ کو علاج کے لیے لٹانے کے بجائے قبر میں لٹانا پڑ گیا۔

پاکستان جیسے عظیم ملک میں یہ پہلا موقع نہیں جب پروٹوکول کی وجہ سے کوئی مظلوم نام نہاد حکمرانوں کی نام نہاد سیکیورٹی کی بھینٹ چڑھا۔ اس بار فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے حکمرانوں کے پروٹوکول کی وجہ سے زچگیاں بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی سڑکوں پر رکشے میں انجام پائیں یا ٹریفک بلاک ہونے کی وجہ سے لاہور شہر کے کنال روڈ پر۔

پڑھیے: بلاول کے پروٹوکول نے ننھی بچی کی جان لے لی

دس ماہ کی بسمہ کی وفات کی خبر پر بھوکا میڈیا درندوں کی طرح ٹوٹ پڑا اور تمام اہم خبروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا نے اس خبر کو ایسے پیش کیا کہ جیسے ان کی اس تفصیلی کوریج سے ڈرپوک حکمران بِنا پروٹوکول کے گھومنے لگیں گے اور آئندہ کبھی نا تو کوئی بچی ہسپتال دیر سے پہنچنے پر مرے گی اور نا ہی کبھی زچگی سڑک پر پھنسے رکشے میں ہوگی۔

مایوسی کی بات یہ بھی ہے کہ بریکنگ نیوز اور ایکسکلوژِو کا ڈھنڈورا پیٹنے والا میڈیا اس سانحہ کو بھول جائے گا اور کل سے ایک بار پھر پنجاب کے حلقے لودھراں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کو پاکستان کا سب سے بڑا ایشو گردانتے ہوئے گھنٹوں اسے کوریج دے گا۔

اطلاعات کے مطابق معصوم بسمہ کی وفات بلاول بھٹو کی سیکیورٹی کو درپیش خدشات کی وجہ سے کیے گئے حفاظتی انتظامات کی وجہ سے ہوئی جس کی وجہ سے سول ہسپتال کی سڑک پر رکاوٹیں لگائی گئی تھیں جو کہ شدید ٹریفک بلاک کا سبب بنیں۔ معصوم کمسن بسمہ کا باپ دوڑتا ہوا ہسپتال پہنچا مگر ایک گھنٹے تک پولیس نے اسے ایمرجنسی میں داخل نہ ہونے دیا۔ اور جب وہ ایمرجنسی پہنچنے میں کامیاب ہوا تو ڈاکٹرز نے کہا کہ اگر وہ پانچ یا دس منٹ پہلے پہنچ جاتا تو بچی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔

مگر سوال یہ ہے کہ اگر بلاول بھٹو ہسپتال کے اندر تھے تو پھر ہسپتال کے باہر کس وجہ سے رکاوٹیں لگا کر ٹریفک بند کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو کی حفاظت تو مانتے ہیں کہ ضروری ہے مگر ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کے مختلف دروازوں کے ذریعے داخلہ کیوں بند کیا گیا؟ بلاول بھٹو ہسپتال میں نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگ کا افتتاح کرنے آئے تھے، ایمرجنسی میں علاج کروانے تو نہیں، پھر کیوں ایمر جنسی کے داخلی دروازوں کے ذریعے داخلے پر پابندی لگائی گئی؟

وزیرِ اعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کے دیگر وزراء نے اپنی اس حرکت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہی ایمرجنسی میں داخلہ ممنوع تھا اور نہ ہی ہسپتال جانے والے راستے بند کیے گئے تھے، اور بلاول صرف 15 سے 20 منٹ میں دورہ کر کے چلے گئے تھے۔ کیا روزانہ ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ذلیل ہونے والے عوام یہ نہیں جانتے کہ ان کے صرف ایک سڑک سے گزرنے پر گھنٹوں کے لیے دور دور تک ٹریفک روک دی جاتی ہے؟ ہم کیسے مان لیں کہ 20 منٹ کے دورے کے لیے سارے راستے بند نہیں کیے گئے ہوں گے کیونکہ بہرحال ہم یہ سب کچھ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

سب سے زیادہ شرمناک بیان تو نثار کھوڑو کا تھا جو کہ سندھ کے وزیرِ تعلیم ہیں۔ وزیرِ تعلیم صاحب کا بیان تھا کہ جو ہوا سو ہوا مگر بلاول کی سکیورٹی بہت اہم ہے۔ ہاں واقعی، صرف بلاول کی سکیورٹی ہی اہم ہے کیونکہ بھٹو کا زندہ رہنا ضروری ہے پھر چاہے عوام مرے یا جیے۔

ویسے بلاول بھٹو کو ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ نئی تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کرنے بلاول ہاؤس سے باہر آئیں؟ اگر ان کو حفاظتی حصار سے نکلنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر وہ تھر میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی باہر نکلتے۔ آئے روز کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگز میں ہلاک ہونے والوں کے جنازوں میں شرکت کے لیے بھی پہنچا کریں۔ اور اگر ان کی سکیورٹی اتنی ہی اہم ہے، تو وہ آخر اس غیر محفوظ ملک کے غیر محفوظ شہر میں رہتے ہی کیوں ہیں؟ یہاں کے عوام پر ایک احسان کر کے اس ملک سے چلے کیوں نہیں جاتے؟

بہرحال اب بلاول بھٹو نے بھی 'انکوائری' کا حکم دے دیا ہے، مگر ہوگا کچھ بھی نہیں۔ پہلے اس ملک میں کتنی انکوائریاں ہو چکی ہیں، ان پر کچھ ہوا؟ جناب بے نظیر بھٹو قتل کی انکوائری رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی تو یہ بسمہ وغیرہ کی کیا حیثیت ہے؟ بسمہ کا چالیسواں تو دور کی بات، سوئم تک بھی میڈیا سمیت پورا ملک اس واقعے کو بھول جائے گا، اور لوگ پھر اگلے ہی دن کسی اور وی آئی پی کی آمد و رفت کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسے رہیں گے.

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

nawssa99@hotmail.com Dec 24, 2015 02:03pm
I agree with the writer. This sort of thing can happen in Pakistan where VIP culture nurtured by chumchas of system as well as so called VIP's as well. Order for inquiry is bullshit, an eye wash, just to make fool of people. Nadia Gabool had nerves to say they will investigate the Doctor who said they could have saved the girl had she been in the hospital earlier. Imagine investigation should be why entry was stopped not why doctor said they could have saved the child. In critical cases every minute counts . Life and death is a matter of seconds. They should go to West and see how lives are saved in matter of seconds. Even once patients enters the hospital it is very important to provide critical life saving treatment immediately. Hours of delay in entering the hospital?????? ha ha. and they are saying there was no stoppage for patients to enter the hospital. As if we don't know how these secutiy measures are implemented by Sindhi government.
فہیم Dec 24, 2015 03:02pm
یہ ہمارے معاشرے کی بے حسی کی وہ شرمناک تصویر ہے جس پے انسانیت بھی شرمندہ ہے.
Haider Shah Dec 24, 2015 03:27pm
PPP have legacy to cash out Zulfiqar Ali Bhutto blood since 4th of April 1979. there always be a raising and downfall for dynasty and time has come to see from eye's legacy is on dyeing stage and one could understand dyeing wolf screaming , sometime become violent all these vigilant sign show a dead wood in a future ahead.
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 24, 2015 05:40pm
“ سوال یہ ہے کہ اگر بلاول بھٹو ہسپتال کے اندر تھے تو پھر ہسپتال کے باہر کس وجہ سے رکاوٹیں لگا کر ٹریفک بند کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو کی حفاظت تو مانتے ہیں کہ ضروری ہے مگر ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ہسپتال کے مختلف دروازوں کے ذریعے داخلہ کیوں بند کیا گیا؟ بلاول بھٹو ہسپتال میں نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگ کا افتتاح کرنے آئے تھے، ایمرجنسی میں علاج کروانے تو نہیں، پھر کیوں ایمر جنسی کے داخلی دروازوں کے ذریعے داخلے پر پابندی لگائی گئی؟“ یہ سوالات بچگانہ ہیں اور اغلب ہے کہ بلاگ کو طول دینے کے لیے پھینکے گئے ہیں۔ بہرحال ان کے جوابات درج ہیں: ٹریفک اور ہسپتال کے مختلف دروازے اس لیے بند کیے گئے کہ ‘کار بمب دھماکہ‘ اور مریضوں کے روپ میں دہشتگردی بھی ہو سکتی تھی۔ ایمرجنسی داخلی دروازے داخلوں پر پابندی اس لیے لگی کہ خودکش بمبار ایمرجنسی کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ المختصر، سیکورٹی معاملات سیکورٹی ادارے ہی بہتر جانتے ہیں، ان پر سوالات اٹھا کر افلاطون بننے کا ڈھونگ نہیں کرنا چاہیے۔
Masroor Dec 24, 2015 06:35pm
I disagree with the writer and very hopeful that this types of incidents will be getting our country closer to the tipping point from where the table will be turn in favour of poor people of Pakistan. Insha'Allah sooner rather than later!
fiz Dec 24, 2015 10:35pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ Jbap k kisi family member k sath aesa ho ga to hum b dekhen gy tab b ap jieye bhuto kaa he nara lagana
muneer Dec 25, 2015 05:27am
i am not agree with title dear don't any anything about bhutto, Mr. Bhutto was very great leader and with very charming personality. now PPP have only zardari and son of asif zardari is also bilawal zardari thanks and regards

کارٹون

کارٹون : 13 اپریل 2025
کارٹون : 12 اپریل 2025