انتہاپسندی کا ذمہ دار کون؟
جب تک پاک ہندوستان سرد جنگ کو مذہب کی آڑ میں لڑنے کی روایات برقرار رہیں گی تب تک جنوبی ایشیا میں انتہا پسندیوں کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ جب وہ ترشول، پرتھوی، اگنی، براہمو جیسے میزائل بناتے رہیں گے اور ہم غوری، شاہین، غزنوی، ابدالی جیسے میزائلوں سے رانجھا راضی رکھیں گے تو پھر اعتدال پسندی، بردباری اور ہم آہنگی کی باتیں محض مذاق ہی رہیں گی۔
مہا قوم پرستی (Supper Nationalism) تنگ نظر قوم پرستی (Narrow Nationalism) اور مذہبی تعصب و تفاخر انسانوں کو رواداریوں اور اعتدال پسندیوں سے دور لے جاتی ہیں۔ اپنی قوم، زبان، مذہب یا فرقے کو افضل قرار دیتے ہوئے دوسری قومی، زبانوں، مذاہب یا فرقوں کو رگیدنا ہی وہ غیر مناسب رویہ ہے جو انسانوں میں انتہا پسندیوں کی گرہ مضبوط کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیوں، بھگتوں اور جوگیوں نے ہمیشہ اعتدال پسندی کی تعلیم دی۔
تاہم 19 ویں اور 20 ویں صدیوں میں وطنی ریاستوں کی تشکیل کے بعد ہونے والی گرم و سرد جنگوں کی وجہ سے ہم صوفیوں اور بھگتوں کی اعتدال پسندیوں کو بوجوہ طرز حکمرانی میں سمونے سے قاصر رہے۔ البتہ دو خوفناک عالمی جنگیں لڑنے اور انسانیت کا قتلام کرنے کے بعد جمہوری اقتدار کی آبیاری کی تحریک نے ’حقوق“ کے عنوان تلے تقویت پکڑی۔ جدید عہد میں اعتدال پسندی کی یہی تعلیم جمہوری اقرار کے عنوان سے دی جا رہی ہے۔
19 دسمبر کو ہندوستان سے شائع ہونے والے دکن ہیرالڈ کے شمارے میں وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کی خبر چھپی۔ اس میں یہ اقرار موجود تھا کہ ہندوستانی نوجوانوں میں شدت پسندیاں اور انتہا پسندیاں بڑھ رہی ہیں جس کی اک نمایاں وجہ سوشل میڈیا ہے۔ ہندوستانی صوبے گجرات میں ہونے والے اس اجلاس میں صوبائی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بڑھتی ہوئی شدت پسندیوں کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کو قرار دیا۔
پچھلے دنوں مجھے پاکستان کی معتبر سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں کیے جانے والی سروے رپورٹ پڑھنے کا موقع بھی ملا تھا۔ امریکی ادارے یو ایس آئی پی اور غیر سرکاری تنظیم ”برگد“ کے ذریعے کروائے گئے اس سروے میں بھی پاکستانی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندیوں کے ضمن میں سوشل میڈیا کے کردار کی بات کی گئی تھی۔ تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ انتہا پسند رحجانات کی طرف 20 سے 30 سال کے بچے بچیاں زیادہ مائل ہیں۔ یوں یہ بات باآسانی کہی جاسکتی ہے کہ 1980 کی دہائی میں جو نسل پاکستان و ہندوستان میں پیدا ہوئی تھی وہ نفرتوں اور کدورتوں سے لیس ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف لڑائیوں کو ہندوﺅں اور مسلمانوں یا ہندومت اور اسلام کی جنگ کے پیرائے میں بیان کرتے رہیں گے تو پھر حکمرانوں کا گلہ نہ تو نوجوانوں سے ہونا چاہیے نہ ہی وہ محض سوشل میڈیا کو اس کا ذمہ دار ٹہرا سکتے ہیں۔ 1960 کی دہائی کے اولین سالوں تک پاکستان اور ہندوستان کے فوجی جوان جنگی مشقوں میں جاپانیوں کے خلاف لڑائی لڑتے تھے جسے دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں سمجھنا آسان ہے۔ تاہم 1965 کے بعد پاکستان میں دشمن کی ”بودی“ نکل آئی اور ہندوستان میں دشمن کی ”داڑھی“ بنادی گئی۔
2004 میں مشہور ہندوستانی سماجی کارکن شبنم ہاشمی سے میں نے اک نجی محفل میں پوچھا کہ آپ کے ملک میں بنیاد پرستوں نے معاشرتی سطح اور ریاستی اداروں میں پناہ گاہیں کب سے بنانی شروع کی تھیں، تو جواب ملا کہ 1965 سے 1974 کے درمیان، کہ خود پاکستان میں بھی یہی وہ وقت ہے جب غیر ریاستی عناصر اور انتہاپسندوں کی سرپرستی کا آغاز ہوا تھا۔ میں نے ان کا انٹرویو شائع بھی کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ آج ہندوستان میں لبرل، جمہوری اور ترقی پسند کارکنوں کے پاس کوئی متبادل نہیں رہا. وہ ہندوستانی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتلام پر کمیونسٹ پارٹیوں اور کانگریس کی مجرمانہ خاموشی کی ناقد تھیں۔
1965 سے قبل دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی فلمیں بھی دیکھی جاتی تھیں مگر جنگ کے بعد ان پر بھی پابندیاں لگ گئیں۔ حالات اس قدر خوفناک شکل اختیار کرگئے کہ آج کا نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ شاید پاکستان اور ہندوستان 14 اگست کے بعد ایک دوسرے کے خلاف ہر میدان میں برسرپیکار رہے تھے۔ اسے دونوں ممالک کے ارباب اختیار میں ہونے والے دو طرفہ اور بین الاقوامی معاہدوں اور سمجھوتوں کے بارے میں تو بتایا نہیں جاتا البتہ جنگوں اور اختلافات کا تواتر سے ورد کروایا جاتا ہے۔
اخباروں اور نصابی کتابوں سے لے کر ہتھیاروں کے ناموں تک تمام امور میں پاک ہندوستان سرد جنگ کو ہندو مسلم تنازعے کی صورت میں بڑھاوا دیا گیا۔ کم از کم دو نسلیں مذہب کی بنیاد پر لڑی جانے والی سرد جنگ میں جوان ہوچکی ہیں اور اس کا سب سے خطرناک اثر تو خود پاکستانی و ہندوستانی معاشروں ہی پر پڑا ہے۔ آج بشمول میڈیا کون سا ادارہ ہے جہاں مذہبی جنگی جنونیت کے اثرات نہیں ہیں۔ پاکستان میں تو 2013 کے انتخابات میں ”ہندوستان دشمنی“ کوئی سیاسی ایشو ہی نہیں تھا مگر ہندوستان میں تو 2014 کے انتخابات میں ”پاکستان دشمنی“ کا کارڈ خوب کھیلا گیا۔
جس دہشت گردی کا رونا صبح شام دونوں ممالک کے حکمران اور پالیسی ساز رو رہے ہیں اس کی ماں تو انتہا پسندی ہے اور جب تک انتہا پسندیاں موجود رہیں گی، دہشت گردوں کی نرسریاں آباد رہیں گی۔ جب تک پاک ہندوستان اختلافات کو مذہبی عینک سے دیکھتے رہیں گے تب تک انتہا پسندیاں ہمارا مقدر رہیں گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے بیانے بدلنے پر غور کریں۔
سوشل میڈیا اور نوجوانوں کے گلے میں انتہا پسندیوں کی گھنٹیاں باندھنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اب اپنے اپنے بیانیوں کو بدلنے کا عملی اقرار کرنا ہوگا۔ نصابی کتابوں سے ہتھیاروں کے ناموں تک اس کا اظہار ہوگا تو دنیا یہ بات تسلیم کرے گی کہ آپ انتہا پسندیوں اور دہشت گردیوں کے واقعی خلاف ہیں۔
اگر دونوں ممالک نفرتوں بھرے مواد کی ترویج و اشاعت کو کچلنے پر متفق ہوجائیں تو اگلے سال سارک کے 19 ویں اجلاس میں اس کا قابل عمل طریقہ کار بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ پاک ہندوستان سرد جنگ کے مہلک اثرات سارا خطہ بھگت رہا ہے۔ محض تجارتیں شروع کرنے کے اعلان سے یہ گتھی نہیں سلجھے گی، بلکہ تجارتی ماحول بنانے کے لیے اعتماد سازیوں کو بحال کرنا لازم ہے۔ بصورت دیگر جنوبی ایشیائی حکمران اور معاشرے ”لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ" کی عملی تفسیر ہی بنے رہیں گے۔
تبصرے (4) بند ہیں