کیا واقعی کسی چیز کی پردہ داری ہے؟
اس سال ماہِ اپریل میں صدر ممنون حسین نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے۔ یہ آرڈیننس وزیرِ اعظم نواز شریف کے مشورے سے جاری کیا گیا تھا تاکہ عمران خان کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی جا سکے، جو 14 اگست 2013 سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے اور 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد انہوں نے اپنا احتجاج ختم کیا۔
آرمی پبلک اسکول حملے کی پہلی برسی کے موقع پر جو والدین اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے، عمران خان نے انہیں یہ کہہ کر ٹرخانے کی کوشش کی کہ "ہم کیا کر سکتے ہیں، اس طرح بچے واپس تو نہیں آجائیں گے۔"
کسی کو بھی پی ٹی آئی سے ایک اور دھرنے کی امید نہیں ہے کیونکہ اس کی اس صوبے میں حکومت ہے جہاں پر یہ قتلِ عام ہوا تھا۔ والدین ایک سال سے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ ان کی بات سنی جاتی، انہیں آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی "قربانیوں" کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تقریبات میں نہیں آنے دیا گیا۔
حملے میں بچ جانے والے نویں جماعت کے طالبعلم محمد سبحان کا کہنا ہے کہ "والدین کو تب تک چین نہیں آئے گا، جب تک کہ وہ ان افراد کے چہرے نہ دیکھ لیں جنہوں نے ان کے بچوں کی جان لیں۔ لوگوں کو دھڑا دھڑ گرفتار کرنا اور لٹکانا والدین کو تسکین نہیں پہنچائے گا کیونکہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔" محمد سبحان ایک سال گزرنے کے بعد بھی شدید صدمے کا شکار ہے کیونکہ اس نے اپنے دوستوں اور اساتذہ کو اپنے سامنے خون میں تڑپتے دیکھا ہے۔
حیرت ہے کہ آخر والدین کی یہ اکلوتی خواہش حکام کو اتنی پریشان کن کیوں لگ رہی ہے جبکہ پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 1956 واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ "حکومت کسی بھی عوامی اہمیت کے مسئلے کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم کر سکتی ہے۔"
جس طرح پہلی برسی پر یادگاری نغمے اور یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں اور تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں، اس سے واضح ہے کہ سانحہ پشاور ایک عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔
صدمے کے شکار خاندانوں کا یہ مطالبہ کوئی منفرد بھی نہیں، کیونکہ جب بھی کسی واقعے کو الزامات کی نذر کر دیا جائے، یا اس سے متعلق حقائق سامنے موجود نہ ہوں، تو متاثرین صاف اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ ضرور کرتے ہیں۔ گذشتہ سال 17 جون کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن واقعے میں 14 افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔ رپورٹیں بھلے ہی عوام کے سامنے نہ لائی جائیں، مگر کسی نہ کسی طرح عوام کو اپنے سوالوں کے جوابات مل ہی جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت خود بھی تو ملتان کی بھگدڑ، پولیتھین فیکٹری سانحے اور مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہے، تو پھر یہ اس سانحے پر خاموش کیوں ہے جس نے ملک کی سمت تبدیل کر دی ہے؟ یہ عجیب ہے کیونکہ نہ صرف یہ جماعت خیبر پختونخواہ میں حکومت میں ہے جہاں یہ قتلِ عام ہوا، بلکہ والدین اسی چیز کا تقاضہ کر رہے ہیں جس کی علمبردار یہ سیاسی جماعت ہے، یعنی انصاف۔
مگر سانحے کو ایک سال مکمل ہونے سے صرف ایک دن قبل وزیرِ اعلیٰ مشتاق غنی کے خصوصی اسسٹنٹ نے کہا کہ وہ خاندانوں کا دکھ سمجھتے ہیں، مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے عدالتی تحقیقات کی ضرورت کی نفی کی کہ حملے کے بارے میں حقائق واضح ہیں۔ مگر والدین اور حملے میں بچ جانے والے بچے ببانگِ دہل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ سانحے سے متعلق کئی حقائق اب بھی واضح نہیں ہیں۔
کس نے منصوبہ بندی کی، اس میں کون کون لوگ شامل تھے، کس نے حملہ آوروں کو مدد فراہم کی، ماسٹرمائنڈ کون تھا، یہ سوالات والدین اور طلبا کے ذہنوں میں اب بھی باقی ہیں۔ وہ اس لیے بے چین ہیں کیونکہ پہلے الزام ایک گروپ اور پھر دوسرے پر ڈالا گیا۔ کسی نے کہا کہ اسکول پر 7 افراد نے حملہ کیا اور پھر کہا گیا کہ نہیں حملہ آور 27 تھے۔ دہشتگردوں کی قومیت بھی متنازع رہی ہے۔ پہلے دو پڑوسی ممالک کے خفیہ اداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا، اور اس کے بعد ایک "دبلے پتلے آدمی" کے گروپ کو اس شیطانی اقدام میں ملوث قرار دیا گیا۔
جو والدین ایک سال سے صدمے کی کیفیت میں ہیں، اور اس سانحے میں بچ جانے والے وہ بچے جن کی روحیں ہمیشہ کے لیے زخمی ہو چکی ہیں، ان کا یہ حق ہے کہ وہ جانیں کہ اس طرح کے حملے کی پہلے سے موجود خفیہ اطلاعات کی نوعیت کیا تھی، اور اگر ایسے کسی حملے کا خطرہ موجود تھا، تو اس کا سدِباب کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ جاننا بھی ان کا حق ہے کہ حملے کا ردِ عمل کیسا تھا۔ کیا یہ مناسب، بروقت اور پروفیشنل تھا؟
حالیہ تاریخ میں آرمی پبلک اسکول حملے کا صرف ایک حملے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جو ستمبر 2004 میں بیسلان میں ہوا تھا جس میں چیچن انتہاپسندوں نے 300 لوگوں کو یرغمال بنا کر قتل کردیا تھا۔ تجزیہ کار پیٹر فوریسٹر لکھتے ہیں کہ بیسلان حملے نے روسی نفسیات پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا کیونکہ واقعے کا باریکی سے جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوا کہ حملے کا سدِباب کرنے اور اس پر ردِ عمل دینے میں بہت سی غلطیاں کی گئی تھیں۔
کیا یہ جاننا والدین کا حق نہیں ہے کہ آرمی پبلک اسکول حملے کے دوران تمام اقدامات ویسے ہی کیے گئے جیسے کہ اس طرح کی صورتحال میں کرنے چاہیئں؟ ایسے سوال انسدادِ دہشتگردی کے لیے ذمہ دار حکام کے لیے مشکل ہو سکتے ہیں مگر انہیں چھپایا کیوں جا رہا ہے؟ جو کرنا چاہیے تھا، اگر وہی کیا گیا ہے تو عوام کو بتا کیوں نہیں دیا جاتا تاکہ غم میں ڈوبے والدین کو کچھ سکون ملے؟ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے صدمہ انگیز واقعات کے بعد عوام کے سوالوں کا جواب دینا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
یہاں تک کہ خاندانوں کے درمیان تنازعات میں بھی، جیسا کہ پختون ثقافت ہے، اگر کسی کا پیارا کسی پراسرار واقعے میں قتل ہوجائے تو خاندان اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیتا جب تک کہ قتل کا بدلہ نہ لے لیا جائے، پھر چاہے ایک صدی بھی کیوں نہ گزر جائے، جب تک خاندان کو ان لوگوں سے بدلہ نہ مل جائے جن پر قتل کا شک بھی ہو، یا پھر دوسرا فریق اپنے کیے پر نادم ہو کر "روغہ" (مفاہمت) کے لیے آگے نہ آئے، تب تک متاثرہ خاندان کو چین نہیں آتا۔
آرمی پبلک اسکول حملے میں جانیں گنوا دینے والے بچوں کے والدین عدالتی تحقیقات کا مطالبہ صرف اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ان سوالوں کے جواب حاصل کر سکیں جنہوں نے ان کی ایک سال سے نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کا دھیان ہٹانے کے لیے حکومتی خرچے پر عمرہ بھی انہیں سکون نہیں دلا سکا ہے، اور نہ ہی ان لوگوں کی پھانسیوں سے انہیں سکون ملا ہے جنہیں اعترافِ جرم کرتے ہوئے انہوں نے نہیں سنا۔ پر اگر صرف سانحہ پشاور سے متعلق سچائی کو ہی واضح کر دیا جائے، تو نہ صرف والدین، بلکہ پوری قوم کو نفسیاتی و ذہنی سکون ملے گا۔
کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول سانحے نے قوم کو متحد کر دیا ہے اور فوج بھی جون 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب میں 16 دسمبر کے حملے کے بعد تیزی لائی ہے جس سے دہشتگردوں کے حملوں میں کمی ہوئی ہے۔ مگر قوم کو ذہنی سکون چاہیے۔ ہم سامنے موجود تلخ حقائق سے آنکھیں کیوں چرا رہے ہیں؟
اگر چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، تو پھر عدالتی تحقیقات میں اتنی ہچکچاہٹ کیوں؟
لکھاری ڈان اخبار کی اسٹاف ممبر ہیں.
یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں