’جب مکتی باہنی جان بخشی کے عوض ہمارا سارا سونا لوٹ کر لے گئے‘
آفتاب عالم اور اُن کے چھوٹے بھائی شہاب عالم کے لیے اورنگی ٹاؤن کے بنگلہ بازار میں ایک دکان چلانا کسی بزنس سے کم نہیں۔
بچپن میں جب میں یہاں سے گزرتا تھا تو مجھے دکان کے بل بورڈ پر ہمیشہ حیرت ہوتی تھی: ’ہمارے ہاں مشرقی پاکستان کی مصنوعات دستیاب ہیں‘۔ برسوں بعد میں اِس جملے کو سمجھنے کے قابل ہوسکا۔
بہت سارے لوگوں کو یہ بات فریب لگتی ہے لیکن عالم برادران ابھی بھی اِس 'داستان' پر اصرار کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان اب بھی ہمارے ملک کا حصہ ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے 44 سال مکمل ہونے سے کچھ روز قبل جب میں اِن دونوں سے ملا تو تب بھی اُن کا اصرار تھا کہ ’یہ دوسروں کی سازش‘ اور ’ہماری بدنیتی‘ تھی، جو ہمیں 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ تک لے آئی۔
میں نے اُن کی دکان ’ڈھاکا فیبرکس اینڈ کلاتھنگ‘ کے باہر لگے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ’ابھی تک اِسے مشرقی پاکستان کہنے کا کیا مقصد ہے؟‘
چائے کی چسکی لیتے ہوئے آفتاب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
’کیوں کہ یہ مجھے پسند ہے، میں 53 برس کا ہوگیا ہوں اور اِس عرصے میں دنیا کے اِس حصے سے متعلق میرے خاندان نے مجھے یہی سکھایا ہے۔ میں اُسے بنگلا دیش نہیں کہہ سکتا۔ میں وہاں پیدا ہوا، اپنا بچپن وہاں گزارا اور اب بھی میرے دوست اور رشتے دار وہاں موجود ہیں۔ میں اکثر اُس ملک جاتا ہوں۔ مجھے اب بھی یہی لگتا ہے کہ وہ میرا گھر ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک کہانی ہے، لیکن مجھے یہ ایسے ہی پسند ہے۔‘
کچھ یادیں ایسی ہیں جو آفتاب کو مثبت انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں، لیکن کچھ یادیں ایسی بھی ہیں جنہیں وہ بھول جانا چاہتا ہے، خون خرابہ، تشدد، نفرت اور ملک کی ’مسخ کی گئی تاریخ۔‘
5 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے آفتاب اُس وقت 9 برس کے تھے، جب انہوں نے 9 دن بغیر مناسب خوراک کے صرف پانی پر گزارا کیا تھا، جب اُن کا خاندان موت کے خوف سے 16 دسمبر 1971ء سے 3 روز قبل ’مغربی پاکستان‘ پہنچا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ
’وہ زخم اب بھی ہرے ہیں، جب ہم ڈھاکا میں تھے تو ہمیں ہر روز اپنے کسی رشتے دار یا جاننے والے کے قتل کی اطلاع ملتی تھی۔ ہم خوفزدہ تھے اور ہماری اُمیدیں دم توڑ رہی تھیں۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ اردگرد ہونے والے قتلِ عام کے باوجود ہم کیسے محفوظ رہے۔‘
اورنگی ٹاؤن سیکٹر 15 کے گنجان آباد علاقے میں 16 دسمبر 1971ء کے حوالے سے مجھے بہت سی کہانیاں ملیں۔ اِس علاقے میں ایک اچھی خاصی تعداد اُن افراد پر مشتمل ہے جو سقوطِ ڈھاکا کے بعد مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے یہاں مقیم ہوئے۔ ہر کسی کے پاس بتانے کے لیے الگ واقعات ہیں لیکن اِن تمام کہانیوں میں اُس وقت موجود خوف یکساں ہے۔
آفتاب کی تجویز پر میں نے اُن کی ایک آنٹی عقیلہ کریم سے ملاقات کی جو عالم برادران کی دکان سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر رہائش پذیر ہیں۔
ایک خوشگوار اور متمول زندگی گزارنے والی عقیلہ نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ جو کچھ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے محفوظ کر رہی ہیں، اُسی کے بدلے اُنہیں اپنے بچوں کی زندگیاں بچانی پڑیں گی۔ عقیلہ کو اپنا تمام زیور اُس وقت مکتی باہنیوں کو دینا پڑا جب اُنہوں نے اُن کے گھر پر دھاوا بولا اور اُن کے ایک سسرالی رشتے دار کو چھڑیوں اور چاقو کے وار کرکے قتل کردیا اور اُس سے پہلے کہ وہ جنونی اُن کے اور اُن کے بچوں کی طرف بڑھتے، عقیلہ نے اپنا ایک ایک زیور اُن کے حوالے کردیا۔
عقیلہ نے بہتے آنسوؤں کے درمیان بتایا کہ
’میں نے اُن کے بارے میں خوفناک باتیں سن رکھی تھیں۔ ہم علاقے کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے تھے اور ہمارا کپڑے اور بیگز تیار کرنے کا کارخانہ تھا۔ میرے پاس بہت سارا سونا تھا، لہذا میں نے اُن سے اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگی اور گھر میں موجود تمام سونا اُن کے حوالے کردیا۔ میں نے یہ اُس وقت کیا جب میرے رشتے دار تحسین کا بے جان جسم میرے سامنے خون میں لت پت پڑا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُنہوں (مکتی باہنیوں) نے کیا سوچا لیکن وہ سونا لے کر چلے گئے اور ہماری جان بخش دی۔‘
میں نے عقیلہ کریم سے پوچھا کہ کیا اُنہیں اُس زیور کی کل قیمت معلوم ہے، جس نے اُن کی جان بچائی، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’وہ صحیح تو نہیں بتا سکتیں لیکن سونا 2 کلو سے زائد تھا۔‘
اپنی موٹر سائیکل پر بنگلہ بازار کی تنگ گلیوں میں سفر کرتے ہوئے میں نے آفتاب کو دیکھا جو اپنی دکان کے شیلفس میں رکھی چیزوں کو درست کر رہا تھا۔ میں وہاں رک گیا اور اس سے گفتگو کرنے لگا۔
آفتاب نے بتایا کہ
’یہ بنگالی گھمچہ (رومال) ہیں، یہ معیار کے لحاظ سے بہترین ہیں۔ پورے کراچی سے لوگ اِنہیں خریدنے کے لیے میری دکان پر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو مشرقی پاکستان کی لُنگیاں پسند ہیں۔ ہمارے وہاں اچھے تعلقات ہیں لہذا ہم وہاں سے اشیاء لاکر یہاں اچھے خاصے منافع کے ساتھ فروخت کرتے ہیں۔‘
ابھی ہم ’ڈھاکا فیبرکس اینڈ کلاتھنگ‘ پر دستیاب مختلف بنگالی مصنوعات کے حوالے سے بات کر ہی رہے تھے کہ ایک ادھیڑ عمر شخص آفتاب سے ملنے کے لیے آئے۔ آفتاب نے مجھ سے اُن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ اُن کے پڑوسی حبیب الرحمٰن ہے، جنہوں نے مشرقی پاکستان سے ہجرت کی۔
جب آفتاب نے حبیب کو دکان میں میری موجودگی کے مقصد سے متعلق بتایا تو حبیب نے کہا کہ
’ہم 16 دسمبر کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ لیکن اُس 16 دسمبر کی یادیں اُس وقت مدھم ہونے لگیں جب گزشتہ برس اُسی تاریخ کو ایک اور سانحہ رونما ہوا۔‘
حبیب کا اشارہ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی طرف کا تھا، جس میں زیادہ تر معصوم طلباء نے جان کی بازی ہاری۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ
’آپ کو معلوم ہے کہ 16 دسمبر کے اِن دونوں سانحات میں کیا چیز مشترک ہے؟ دونوں میں ہم ہی شکار اور ہم ہی حملہ آور تھے۔‘
یہ مضمون 16 دسمبر 2014 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.
تبصرے (3) بند ہیں