کراچی۔لاہور موٹروے: مبینہ بے ضابطگیوں کا الزام
اسلام آباد: نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے بے ضابطگیوں کے الزامات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کراچی سے لاہور موٹر وے کی 230 کلو میٹر سڑک کا منصوبہ پاکستان اور چین کی مشترکہ فرم کے حوالے کردیا۔
یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے منصوبے کے لیے رواں سال اگست میں بولیاں طلب کیں اور 8 دسمبر کو یہ منصوبہ ایک کھرب 48 ارب کی بولی لگانی والی پاکستان اور چین کی مشترکہ فرم کے حوالے کردیا گیا.
خیال کیا جارہا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اگر بولی دینے والوں کے حوالے سے ہدایات اور معاہدے کی شقوں پر عمل کرتی تو پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت بنائے جانے والے اس منصوبے میں 24 ارب روپے کی بچت کی جاسکتی تھی۔
بولی میں شامل ایک فرم نے مبینہ بے ضابطگیوں پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو قانونی نوٹس بھی بھجوا دیا۔
موٹروے کی تعمیر کے حوالے سے بولی میں شامل معروف کنسٹرکشن فرم فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) بھی اپنی بولی مسترد ہونے پر ناراض نظر آئی اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے منصوبے کے لیے سب سے کم یعنی ایک کھرب 34 ارب روپے کی بولی لگائی تھی۔
ایف ڈبلیو او کے ایک سینیئر آفیشل کا اس پورے عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اُن کی بولی مسترد ہونے کے پیچھے کسی کی بدنیتی نظر آتی ہے۔
بعض بولی لگانے والوں نے این ایچ اے میں شکایت درج کرائی ہے کہ کامیاب بولی دہندہ نے مبینہ طور پر کم میٹریل استعمال کرکے 10 ارب روپے بچائے لیکن اس کے باوجود منصوبے کی کُل لاگت میں کمی نہیں کی گئی حالانکہ بولی کے وقت واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ میٹریل اور سڑک کی موٹائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
این ایچ اے کے جنرل مینیجر مختار درانی کا اس تمام صورتحال کے حوالے سے کہنا تھا کہ موٹروے کا کنٹریکٹ دینے میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا گیا، تاہم اس کے باوجود اگر کسی بولی دہندہ کو کوئی شکایت ہے تو وہ ہماری شکایت ازالہ کمیٹی میں جاسکتا ہے۔
یہ خبر 12 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔