ڈاکٹرعاصم کی والدہ کی پٹیشن پر وزارت داخلہ،دیگر کو نوٹس
کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عاصم کی والدہ کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن پر وزارت داخلہ، رینجرز، صوبائی پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں سے جواب طلب کرلیا، جنھوں نے اپنے بیٹے کی تفتیش صوبائی پولیس سے آزادانہ اور شفاف کروانے کا مطالبہ کیا ہے.
سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بیچ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے، جس میں رینجرز، پولیس اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹر عاصم نے تمام الزامات مسترد کردیئے
ڈاکٹر عاصم کی والدہ نے اپنی پٹیشن میں استدعا کی ہے کہ عدالت فریق بنائے جانے والے اداروں کو ہدایت جاری کرے کہ وہ ڈاکٹر عاصم سے ہونے والی تحقیقات میں شفافیت کو یقینی بنائیں.
پٹشن میں درخواست کی گئی ہے کہ عدالت متعلقہ حکام کو ہدایت کرے کہ وہ تحقیقاتی افسر پر کسی بھی حوالے سے دباؤ نہ ڈالیں اور انھیں مقدمے کی آزاد اور شفاف تحقیقات کرنے دیں۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کے سامنے سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم کے ریمانڈ میں توسیع کے حوالے سے رینجرز کے پراسیکیوٹر اور سندھ حکومت کے پراسیکیوٹر جنرل کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج
رینجرز پراسیکیورٹر نے 4 روز کی حراست کی مخالفت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ انھوں نے عدالت میں جمع کروائے جانے والی درخواست میں 14 روز کے ریمانڈ کی استدعا کی ہے، لیکن سندھ حکومت کے پراسیکیوٹر جنرل نے اس کے جواب میں 4 روز کی حراست کے لیے درخواست دی۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر عاصم کو رواں سال 26 اگست کو سادہ لباس سرکاری اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد ان کو 90 روزہ ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کردیا گیا تھا۔
90 روزہ حراست کا اختتام 25 نومبر کو ہوا تھا، جس کے بعد انھیں پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے کیلئے پٹیشن
شہری حقوق کی مہم چلانے والے ایک شخص کی جانب سے ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ فوجی عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
مذکورہ پٹیشن یونائیٹڈ ہیومن رائٹ کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل رانا فیض الحسن کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ ڈاکٹر عاصم پر انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، اس لیے ان مقدمات کو فوجی عدالتوں میں سماعت کے لیے بھیجا جانا چاہیے۔
یہ خبر 9 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔