اردو کابطورسرکاری زبان نفاذ: ’بیوروکریسی بڑی رکاوٹ‘
کراچی: کراچی آرٹ کانسل میں آٹھویں انٹرنیشنل اردو کانفرنس کا آغاز ہوگیا ہے۔
کانفرنس کا آغاز پاکستان میں اردو کو بحیثیت سرکاری زبان رائج کرنے کے حوالے سے نقصانات اور فوائد پر دو اہم تقاریر سے ہوا۔
ہندوستانی اسکالر پروفیسر شمیم حنفی نے اپنی تقریر کا آغاز اردو کی نظم کے ان اشعار سے کیا ’کس قدر پیاری زبان اور کتنی دکھیاری زبان‘۔
انھوں نے کہا کہ انسانوں کی طرح زبان بھی سفر کرتی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے سامعین کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کروائی کہ 20 ویں صدی دنیا کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں بیشتر خواب اپنے تکمیل کو پہنچے ہیں اور دنیا گواہ ہے کہ اس دوران سب سے بڑی ہجرت بھی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 صدی میں سامنے آنے والے مسائل تاحال موجود ہیں۔
پروفیسر حنفی نے کہا کہ اردو کے مضمون کو دو مختلف پہلوؤں کے حوالے سے دیکھا جانا چاہیے، پہلا یہ کہ اردو کی ابتدا کی وجہ شمالی ہندوستان کا پس منظر ہے اور دوسرا یہ کہ برصغیر کے تمام مسلمان اردو نہیں بولا کرتے تھے (جیسا کہ قاضی نظر السلام بنگالی بولتے تھے)۔
پروفیسر حنفی نے کہا کہ انسان کا صاف اور شفاف ہونا اس کی ذہنی صفائی پر منحصر ہے۔
انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی ٹیکنالوجیکل انقلاب کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی ہے۔
پروفیسر حنفی کا کہنا تھا کہ وہ اُن میں سے نہیں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی، اخلاقی انحطاط کی ایک وجہ ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی گمراہ کن اطلاعات کا ایک ذریعہ ضرور ہے۔
مزید پڑھیں: بین الاقوامی اردو کانفرنس، 8 دسمبر سے کراچی میں
پروفیسر حنفی نے کہا کہ لوگوں کو سائنس کی بنیاد پر فلاحی ریاست اور سائنس کی بنیاد پر جنگی ریاست میں تفریق کرنا چاہیے۔
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر صابر انصاری نے کہا کہ اگرچہ اردو کو عزت اور احترام دیا جانا چاہیے لیکن اس کو معیاری بنانے کے لیے کبھی اقدامات نہیں اٹھائے گئے.
انھوں نے کہا کہ مقامی زبانوں کے لیے لسانی نقشہ تیار کیا گیا تھا لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پروفیسر صابر انصاری نے کہا کہ پاکستان میں 56 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے صرف 16 کا رسم الخط موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1973 میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنایا جائے گا اور اس پر عمل درآمد کے لیے بےنظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی کوششیں ہوئی لیکن ان سے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔
انھوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا کہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہے۔
اپنے اس خیال کی تصدیق کے لیے انھوں نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے اردو پر دیئے جانے والے فیصلے پر ایک اخبار میں ایک بیوروکریٹ کی شائع ہونے والی تحریر کا بھی حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ بہت سی تکنیکی شرائط ایسی ہیں جن کا اردو میں ترجمہ ممکن نہیں ہے۔
اس دعوے کے حوالے سے پروفیسر انصاری نے کہا کہ انگریزی کے لفظ ’download‘ کے لیے اردو میں کوئی لفظ موجود نہیں ہے لیکن اسے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
انھوں نے ہر صوبے میں ایک دارالترجمہ کے قیام کی اہمیت پر زور بھی دیا۔
بعدازاں تقریب سے ڈاکٹر عالیہ امام، امداد حسینی، نثار کھوڑو، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، کشور ناہید، ڈاکٹر عبدالکلیم قاسمی اور انتظار حسین نے بھی خطاب کیا۔
یہ خبر 9 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔