ہر سال پچھلے سال سے گرم کیوں؟
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ دنیا کا موسم بدل رہا ہے اور ہم میں سے بیشتر اس سے بھی آگاہ ہیں کہ ایسا ہمارے اپنے اقدامات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں حیرت انگیز موسمیاتی تبدیلیاں اکثر دیکھنے میں آتی ہیں۔ کچھ جگہوں پر تو مستقل تبدیلی آئی ہے جس سے وہاں کے نباتات اور جانداروں کے لیے باقی رہنا مشکل ہوچکا ہے۔
ہمارے سیارے کا موسم اس وقت سے تبدیل ہو رہا ہے جب سے اس کا قیام عمل میں آیا ہے۔ جدید موسمیاتی عہد، جسے آج ہم انسانوں کی زمین پر رہائش کے لیے موزوں قرار دیتے ہیں، کا آغاز سات ہزار سال قبل برفانی عہد کے اختتام کے بعد ہوا۔ گزشتہ سو برسوں کے درمیان زمین کی سطح کا درجہ حرارت 0.85 سینٹی گریڈ بڑھا ہے جبکہ 21 ویں صدی کے 14 میں سے 13 سال اب تک ریکارڈ ہونے والے سب سے گرم سال قرار پائے ہیں جبکہ 2015 بھی بڑھتے درجہ حرارت کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے کے قریب ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے مطابق 'موسمیاتی نظام میں گرمی بڑھنے کے سائنسی شواہد بالکل واضح ہیں۔'
اس کا مطلب یہ ہے کہ موسموں میں تبدیلی کا رجحان جگہ بنانے میں کامیاب رہا تو اسے ریورس کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا اور یہ چیز زمین پر سب کچھ بدل کر رکھ دے گی. چونکہ ہم ان تبدیلیوں کو واپس کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، تو زمین کے برفانی ذخائر پگھل جائیں گے، سمندری سطح بڑھ جائے گی، برساتی جنگلات معدوم ہوجائیں گے، اور قحط اور شدید گرمی و سردی عام ہوجائیں گے۔
پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں
اگرچہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کو ریورس تو نہیں کرسکتے مگر حالات کو بدترین ہونے اور اپنے سیارے کو ناقابل رہائش بننے سے روکنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں، کیونکہ اگر ہم ڈائناسارز کی طرح ختم نہیں ہونا چاہتے تو ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنا ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ
موسمیاتی تبدیلی نے ہماری زمین میں جو کچھ تبدیلی کیا ہے ان میں گلوبل وارمنگ، سمندروں کی بڑھتی سطح، گلیشیئرز کا سکڑنا، گرین لینڈ، انٹار کٹیکا اور آرکٹک میں برف کا تیزی سے پگھلنا اور پھولوں و پودوں کے کھلنے کے اوقات میں تبدیلی ہے۔
یہ سب زمین کے ماحول گرم ہونے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ روایتی ایندھن کو جلانا اور زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔
موجودہ رجحانات کو دیکھا جائے تو رواں صدی کے اختتام تک زمین کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے زمانے سے قبل کے دور کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 4 سینٹی گریڈ تک زیادہ ہوسکتا ہے جبکہ موجودہ عہد کے مقابلے میں تین سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوسکتا ہے۔
موسموں میں آنے والی کچھ تبدیلیاں تو اب بھی نظر آرہی ہیں جبکہ دیگر مستقبل قریب میں سامنے آئیں گی۔ آئندہ چند دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حجم کا انحصار عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج کی شرح اور اس بات پر ہوگا کہ اس اخراج سے زمین کا موسم کس حد تک متاثر ہورہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے کچھ اثرات یہ ہیں۔
سمندری سطح
پگھلتی برف اور سمندروں کی توسیع کے نتیجے میں عالمی سطح پر سمندروں کی سطح 1880 کے مقابلے میں اب تک آٹھ انچ بڑھ چکی ہے جو 2100 تک ایک سے چار فٹ تک بڑھ جائے گی۔
چونکہ زمین کی سطح پر گرم حالات پر ردعمل ظاہر کرنے میں سمندروں کو طویل وقت لگتا ہے، لہٰذا سمندری سطح اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ تیزی سے اگلی کئی صدیوں تک بلند ہوتی رہے گی۔
شدید موسمیاتی حالات
سمندری طوفان پہلے سے زیادہ طاقتور اور شدید ہو جائیں گے۔
1980 کی دہائی کی ابتداء سے شمالی بحرِ اوقیانوس میں طوفانوں کی تعداد اور دورانیے میں شدت دیکھی گئی ہے اور طاقتور طوفانوں (کٹیگری 4 اور 5) میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
قحط سالی
شدید درجہ حرارت اور بارشوں کی شرح میں تیس فیصد کمی سے قحط سالی اور گرمی کی لہروں کی شدت بڑھے گی، جنگلات میں آگ لگنا زیادہ عام ہو جائے گا جبکہ سرد ہوائیں ہر جگہ کم شدت کی حامل ہوجائیں گی۔
برفانی تودوں اور گلیشیئرز کا پگھلنا
ایک اندازے کے مطابق آرکٹک اوشین رواں صدی کے وسط تک برف سے لگ بھگ پاک ہوجائے گا۔ اسی طرح گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کی برفانی تہیں بھی آئندہ چند دہائیوں میں پتلی ہوجائیں گی۔
مزید پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی: 'سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان'
ناسا کے مطابق گرین لینڈ میں 2002 سے 2006 کے درمیان 150 سے 250 کیوبک کلومیٹر برف ہر سال ختم ہوئی ہے جبکہ انٹارکٹیکا میں 2002 سے 2005 کے درمیان 152 کیوبک کلومیٹر برف کا صفایا ہوا ہے۔
اسی طرح لگ بھگ دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اب چاہے وہ ہمالیہ، الاسکا، افریقہ یا کوہ الپس ہوں، کوئی مقام اس سے بچا ہوا نہیں۔
برفانی تہوں کی کمی
دنیا بھر میں ہر جگہ برف پگھل رہی ہے اور اب دریاﺅں و جھیلوں میں برف قبل از وقت پگھلنے لگی ہے۔ سیٹلائیٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی ہمپشائر میں موسم بہار میں برفانی تہہ کی شرح میں پانچ دہائیوں کے دوران کمی آئی ہے۔
سمندری تیزاب سازی
سمندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر رہے ہیں اور صنعتی انقلاب کے بعد سے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں اس گیس کے جذب ہونے کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ سمندری پانی کی سطح پر تیزابیت بھی تیس فیصد بڑھ چکی ہے اور یہ چیز سمندری جانوروں اور پودوں کے لیے خطرناک ہے، خاص طور پر مونگوں کی چٹانوں کے لیے جو بڑھتے درجہ حرارت اور سمندری تیزابیت کی بناء پر تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔
معدومی
جانداروں کی نسلوں کی معدومی کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے اور رواں صدی کے دوران چالیس فیصد جانداروں کی نسلوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
گرین ہاﺅس (سورج کی حرارت کا زمین کے کرہ ہوائی میں قید ہو جانا) کے اثرات کیا ہیں؟
گرین ہاﺅس اثرات کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ گرین ہاﺅس ہے کیا۔ ایک گرین ہاﺅس شیشے سے بنا ایسا گھر ہوتا ہے جہاں پودوں کو اگایا جاتا ہے، یہ موسم سرما کے دوران پودوں کی نشوونما کے لیے انتہائی مفید ہوتا ہے کیونکہ اس کے اندر درجہ حرارت گرم رہتا ہے۔
دن کی روشنی کی چمک اور شیشے کے اندر گرم ہوجانے والی ہوا شیشے کی دیواروں اور چھت میں قید ہوجاتی ہے تو یہ رات ہوجانے کے بعد بھی کافی گرم رہتا ہے۔
اسی طرح زمین کا ماحول بھی ایک گرین ہاﺅس کی طرح کام کرتا ہے، گیسوں کی ایک تہہ کرہ ہوائی میں موجود ہے جن میں بیشتر آبی بخارات اور کچھ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ ہیں، جو شیشے کی چھت کی طرح کام کرتی ہیں اور سیارے کو تحفظ دیتی ہیں۔
زمین کی سطح دن میں گرم ہوجاتی ہے اور رات کو جب سطح ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو حرارت فضاء میں واپس خارج ہوجاتی ہے مگر کرہ ہوائی میں گرین ہاﺅس گیسز حرارت کو جذب کر کے انہیں قید کر لیتی ہیں اور اسے ہر سمت میں دوبارہ خارج کردیتی ہیں۔ جو توانائی واپس زمین کی جانب آتی ہے، وہ زمین کی سطح اور نچلی فضا کو گرم کرتی ہے.
جانیے: موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کو 'قیامت' کے قریب لارہی ہیں
یہ زمین کو اوسطاً 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم رکھتی ہے، اس گرین ہاﺅس اثر کے بغیر زمین 30 سینٹی گریڈ ٹھنڈی ہوجائے گی، جس سے ہمارا سیارہ بھی نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کی طرح ناقابلِ رہائش بن جاتا.
پر پچھلی دو صدیوں کے دوران ہم نے زمین کی فضاء کو گرین ہاﺅس گیسز کی مقدار بڑھا کر تبدیل کردیا ہے جس کے اثرات کے نتیجے میں حرارت کا اخراج بلاک ہونے لگا ہے۔ یہی وجہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں میں غیرمتوقع شرح کا باعث بنی ہے۔
ان گیسوں میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سب سے بڑی مجرم ہے جو فضاء میں زیادہ عرصے تک موجود رہتی ہے۔ 1750 میں صنعتی انقلاب کے آغاز سے اس گیس کی سطح میں تیس فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور کرہ ہوائی میں اس کی موجودگی آٹھ لاکھ سال میں سب سے زیادہ ہے۔
فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافے کا ذمہ دار کوئلہ اور تیل جیسے ایندھن کو جلانا ہے، جبکہ درختون کا کاٹنا بھی اس کی ایک وجہ ہے، جو اضافی گیس کی کچھ مقدار کو جذب کرسکتے تھے. جبکہ ہماری دیگر سرگرمیوں نے فضا میں گرین ہاﺅس گیسز کو بڑھایا ہے۔
اوزون کی تہہ کا سوراخ سکڑنے لگا
ماحولیاتی اور موسمیاتی معاملات میں اچھی خبر یہ ہے کہ اوزون کا سوراخ سکڑ رہا ہے۔
جی ہاں رواں برس کے شروع میں ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ بڑا سوراخ سکڑ رہا ہے اور 'رواں صدی کے آخر تک بالکل معدوم ہوجائے گا۔' ناسا کے مطابق شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ سوراخ جو اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ اسکوائر میل کے رقبے تک پھیلا ہوا ہے، اکیسویں صدی کے اختتام تک ختم ہوجائے گا۔
اوزون کا سوراخ بنیادی طور پر انسانوں کا بنایا ہوا ہے جو قطبِ جنوبی کے اوپر اوزون کی تہہ پر بنا۔ اوزون کی تہہ زمین کے ماحول کو سورج کی نقصان دہ الٹرا وائلٹ (یو وی) شعاعوں سے بچاتی ہے جو سورج سے آتی ہیں۔ اس سوراخ کو 30 سال قبل برطانوی سائنسدانوں نے انٹارکٹکا میں تحقیق کے دوران دریافت کیا۔ اس سے پیدا ہونے والا خطرہ بہت بڑا تھا کیونکہ اس سوراخ سے کینسر کا باعث بننے والی شمسی تابکاری کی سطح بڑھی تھی اور یہ بڑے پیمانے پر طبی خطرے کا باعث تھا۔
گیسوں کا استعمال جیسے کلور فلورو کاربن (سی ایف سی) کا اسپرے کینز اور ریفریجیرنٹ وغیرہ بالائی فضاء میں اوزون کے مالیکیولز کے بریک ڈاﺅن کا باعث بنتے ہیں، جو سوراخ کا باعث بنا۔
پڑھیے: جب سمندر شہروں اور ملکوں کو نگل جائے گا
1987 میں مانٹریال پروٹوکول معاہدے کے بعد سے سی ایف سی گیسوں کے اخراج میں کمی آئی ہے اور اوزون دوست متبادل کیمیکلز عام استعمال ہونے لگے ہیں۔
گرین ہاﺅس گیسز کو کم کرنے کے طریقے
روایتی ایندھن جیسے قدرتی گیس، کوئلہ، خام تیل اور پٹرول کو جلانے سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھتی ہے، جو گرین ہاﺅس اثرات اور گلوبل وارمنگ کا باعث بنتی ہے۔ توانائی کا کفایتی استعمال کرکے ہم روایتی ایندھن کی طلب کو کم کرسکتے ہیں۔
کمی، ری سائیکل، دوبارہ استعمال
ایسی مصنوعات کو خریدیں جو کم از کم پیکجنگ کے ساتھ ہو اور اپنے گھریلو کچرے کو ری سائیکل کریں۔
کم حرارت اور ایئر کنڈیشنر کا استعمال
چھتوں اور دیواروں کو انسولیٹ کریں، ماحول دوست گھروں کی تعمیر سے اسے ٹھنڈا یا گرم کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت بھی کم ہوگی۔
فلورسنٹ لائٹوں کا استعمال
عام لائٹ بلبوں کو فلورسنٹ لائٹ بلبوں سے بدل دیں۔ ان کو کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہ زیادہ عرصے تک چلتے ہیں۔
گاڑی کا موثر استعمال
ہمیں شاہراہوں پر گاڑیوں کی تعداد میں کمی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ روایتی ایندھن کے ایک گیلن کو بچا کر ہم 20 پونڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضاء میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں جبکہ پیسوں کی بچت بھی ہوتی ہے۔
پانی کا کم استعمال
جب دانتوں کو برش کریں، برتن اور کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ پانی سے متعلق دیگر کام کریں تو اس وقت تک پانی کو بند رکھیں جب تک آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ جب تک نہانا نہ ہو اس وقت تک واٹر گیزر کو کم حرارت پر رکھیں۔ کم پانی بہانے والے شاور ہیڈ کے استعمال سے بھی پانی کی بچت کی جاسکتی ہے۔
سوئچ آف
گھر میں صرف وہی لائٹس جلائے جن کی ضرورت ہو اور کمرے سے نکلنے سے قبل انہیں بند کردیں۔ دیگر برقی مصنوعات جیسے ٹی وی، اے سی اور کمپیوٹر کو بھی استعمال نہ کرنے پر بند کردیں۔
درخت لگائیں
درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں، ہم اس قدرتی طریقے سے ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی لاسکتے ہیں۔ ایک درخت اپنی پوری زندگی میں ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکتا ہے۔
یہ مضمون 5 دسمبر کو ڈان کے ینگ ورلڈ میگزین میں شائع ہوا.
تبصرے (1) بند ہیں